آس

ویکی لغت سے

آس {آس} (سنسکرت)

آشا آس

سنسکرت میں اصل لفظ آشا ہے۔ اردو زبان میں داخل ہو کر آس مستعمل ہوا۔ سب سے پہلے 1496ء میں شمس العشاق کے "خوش نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

متغیّرات

آسا {آ + سا}

اسم مجرد (مذکر، مؤنث - واحد)

جمع: آسیں {آ + سیں (یائے مجہول)}

جمع استثنائی: آساں {آ + ساں}

جمع غیر ندائی: آسوں {آ + سوں (واؤ مجہول)}


معانی[ترمیم]

توقع، امید۔

"آج ..... مجھے زندگی کی آس ہوئی ہے۔" [1]

2. آسرا، سہارا، پناہ، مدد، حمایت۔

؎ یہی تو ایک ہے بازو شہ مدینہ کا

حرم کی آس ہے اور آسرا سکینہ کا [2]

لاگ جس کی مدد یا لگاؤ سے کوئی کام انجام پائے۔

"بغیر پٹ بغیر آس پیتل کوں کر دکھلاؤں گا سنے تی خاص۔" [3]

3. تمنا، خواہش۔

؎ سراپا وہ بنی الماس کی ہے

اسی کی صاحب میں نے آس کی ہے

4. حمل، لڑکے بالے کی امید۔

"کیوں بیگم صاحبہ صاحبزادی کی شادی کو برس روز سے زیادہ ہوا اللہ رکھے کچھ آس ہے۔" [4]

5. بال بچے، آل اولاد، ذریات۔

"اپنی آس کے سر پر ہاتھ رکھ جا۔" [5]

6. آواز سنگت والوں کا آ آ کر کے گویّے یا سوز خواں کو سہارا دینے کا عمل، ستار، سارنگی یا بانسری وغیرہ کے ساتھ ضمنی ساز کی سہارا دینے والی آواز تاکہ تسلسل، لے یا رنگ قائم رہے۔

؎ عنادل جو ہوتے ہیں نغمہ سرا

انھیں آس دیتی ہے موج صبا [6]

7. { کاریگری } ٹیک، ٹیکن، ٹکاؤ، اڑواڑ، سہارا، پشتہ۔

"کڑی میں آس لگا کر چشمے کی اینٹیں نکال ڈالو۔" [7]

8. اعتماد، اعتبار، بھروسا

؎ باسی پھولوں میں باس کیا

دور گئے کی آس کیا [8]

مترادفات[ترمیم]

اُمِّید بھَروسَہ تَوَقُّع اُمِید آشا سَہارا آرْزُو

متضادات[ترمیم]

نَااُمِّیدی مایُوسی

مرکبات[ترمیم]

آس مُراد، آس والا

روزمرہ جات[ترمیم]

آس پوری ہونا

آس پوری کرنا کا فعل لازم ہے۔

؎ آس پوری ہوئی جب حضرت شبیر

ملے ایسی ہر بندہ آرزو کو تقدیر ملے [9]

آس تجنا

امید چھوڑ دینا، مایوس ہو جانا۔ (فرہنگ آصفیہ، 159:1)

آس تڑانا

آس توڑنا سے تعدیہ ہے۔

"ایکن راکھے آس تڑاو۔" [10]

آس پڑنا

سہارا ہونا، لپکا ہونا۔

"بلی کے دل میں بادشاہ کے جھوٹے جھاٹے کی آس ایسی پڑ گئی تھی۔" [11]

آس پوری کرنا

امیر بر لانا۔

؎ ہو بہو جد سے مشابہ جو وہ فرزند ملا

آس پوری ہوئی زینب کی وہ دلبند ملا [12]

آس بندھنا

آس بندھانا کا مغل لازم ہے۔

؎ تھمے جو آنسو، رکی نہ ہچکی بندھی ہوئی آس اور ٹوٹی

مہین سا سانس کا یہ ڈورا اور اس پہ ایسے کرارے جھٹکے [13]

آس بھرنا

(دل یا نیت کا) سیر ہونا، خواہش پوری ہونا، رغبت باقی نہ رہنا۔

"جتنا جی چہتا ہے اتنا آس بھر کر کھا لینا۔" [14]

آس پجانا

تمنا پوری کرنا، مراد بر لانا۔

؎ نت ہر بھج ہر بھج رے بابا جو ہر سے دھیان لگاتے ہیں

وہ ہر کی آسا رکھتے ہیں ہر ان کی آس پجاتے ہیں [15]

آس باندھنا

امیدوار ہونا،توقع کرنا، آسرا لگانا۔

؎ بڑھتی ہیں بے چینیاں جب آس باندھو چین کی پھول

چن لیتی ہے اور کانٹے بچھا جاتی ہے نیند [16]

آس بجھانا

امید خواہش یا توقع پوری کرنا۔

؎ لے آگائے اور دودھ کے راس کو

بجھاءوں ترے دِل کی اس آس کو [17]

آس بندھانا

ہمت بڑھانا، جرات دِلانا، حوصلہ بخشنا۔

؎ پانی کی سدھارے تھے مجھے آس بندھا کے

رخ بھی نہ کیا خیمے کا پھر خیمے سے جا کے [18]

آس اولاد پر پڑے / اولاد کے آگے آئے / پائے

(کوسنا) بال بچوں کو تکلیف و آزار پہنچے۔

"اپنی آس اولاد کے آگے پائے۔" [19]

فقرات[ترمیم]

آس پرائی جو تکے وہ جیتا ہی مر جائے

پرایا بھروسا کرنے میں سراسر نقصان ہے یا زندہ درگور ہونا ہے۔ (امیراللغات، 101:1)

مزید دیکھیے[ترمیم]

آس2


رومن[ترمیم]

Aas

تراجم[ترمیم]

انگریزی : Longing; desire; hope; expectation; faith; assurance; confidence; protection; shelter; refuge; support; mainstay

حوالہ جات[ترمیم]

   1    ^ ( 1920ء، عزیزہ مصر، 163 )
   2    ^ ( 1971ء، مرثیہ یاور اعظمی، 13 )
   3    ^ ( 1635ء، سب رس، 70 )
   4    ^ ( 1891ء، امیراللغات، 101:1 )
   5    ^ ( 1895ء، فرہنگ آصفیہ، 159:1 )
   6    ^ ( 1932ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، 357 )
   7    ^ ( 1891ء، امیراللغات، 101:1 )
   8    ^ ( 1895ء، فرہنگ آصفیہ، 159:1 )
   9    ^ ( 1951ء، کلام حسن، میر غلام حسن، 6 )
   10    ^ ( 1503ء، نوسرہار (دکنی اردو کی لغت، 5) )
   11    ^ ( 1765ء، انوار سہیلی، (دکنی اردو کی لغت، 4) )
   12    ^ ( 1961ء، مرثیہ منظور رائے پوری، 9 )
   13    ^ ( 1938ء، سریلی بانسری، 118 )
   14    ^ ( 1765ء، انوار سہیلی (دکنی اردو کی لغت، 4) )
   15    ^ ( 1830ء، نظیر، کلیات، 224:2 )
   16    ^ ( 1938ء، سریلی بانسری 53 )
   1    ^ ( 1802ء، بہار دانش، 31 )
   18    ^ ( 1931ء، مرثیہ بزم اکبر آبادی، 14 )
   19    ^ ( 1895ء، فرہنگ آصفیہ، 195:1 )