آہستہ

ویکی لغت سے

آہِسْتَہ {آ + ہِس + تَہ} (فارسی)

فارسی زبان سے ماخوذ ہے۔ اردو میں اصلی حالت میں ہی بطور متعلق فعل اور گاہے بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1707ء میں ولی کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

متعلق فعل

معانی[ترمیم]

دھیمے سے، سہج سے، ٹھہر ٹھہر کر، حرکت بطی کے ساتھ، بتدریج، دھیرے دھیرے۔

؎ زلف آہستہ جھٹکیے مرا جی ڈرتا ہے

دیکھیے ہاتھ کا جھٹکا نہ کمر تک پہنچے[1]

2. نرمی سے، ملایمت سے، حلم سے، دھیمے لہجے میں۔

؎ سرھانے میر کے آہستہ بولو

ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے [2]

3. چھپ کر، پوشیدہ، چپکے سے۔

؎ پھر ایک نظر دیکھ کے فرزند نبی کو

آہستہ چلے تانہ سکینہ کو خبر ہو [3]

4. کاہلی سے، مٹھے پن سے۔

"نوکر کے انتخاب میں دیانت داری اور اخلاق کی معلومات بہم پہنچانے کے بعد یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ٹالتا تو نہیں، کام تو آہستہ نہیں کرتا۔" [4]

معانی2[ترمیم]

صفت ذاتی [5]

ٹھہر ٹھہر کر چلتا ہوا، دھیما۔

؎ دیکھ رفتار انقلاب فراق

کتنی آہستہ اور کتنی تیز [6]

مترادفات[ترمیم]

نَرْم آسان دھِیما سَہْل دھِیما زیرِ لَب

مرکبات[ترمیم]

آہِسْتَہ آہِسْتَہ، آہِسْتَہ رائے، آہِسْتَہ رَو، آہِسْتَہ قَدَم


رومن[ترمیم]

Aahistah

تراجم[ترمیم]

انگریزی: Slowly; softy; tenderly; leisurely; by degrees; slow; slack ; lazy; soft

حوالہ جات[ترمیم]

    1   ^ ( 1905ء، داغ (مہذب اللغات، 143:2) )
     2  ^ ( 1810ء، میر، کلیات، 349 )
     3  ^ ( 1903ء، مرثیہ بزم اکبر آبادی، 11 )
     4  ^ ( 1952ء، سہ روزہ مُراد خیرپور، 4 اپریل، 2 )
    5   ^ ( مذکر )
     6  ^ ( 1959ء، گل نغمہ، فراق، 473 )