آستائی

ویکی لغت سے

آسْتائی {آس + تا + ای} (سنسکرت)

ستھائی آسْتائی

سنسکرت میں اصل لفظ ستھائی ہے لیکن اس سے ماخوذ اردو زبان میں آستائی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1861ء میں "فسانہ عبرت" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ (مؤنث - واحد)

جمع: آسْتائِیاں {آس + تا + اِیاں}

جمع غیر ندائی: آسْتائِیوں {آس + تا + اِیوں (و مجہول)}


معانی[ترمیم]

گانے کا ابتدائی ٹکڑا خواہ وہ ایک مصرع کے طور پر ہو یا دو مصرعوں کے طور پر، انترہ کی ضد، (متاخرین کے نزدیک) خیال۔

"کسی بنانے والے کے انترے میں چار پانچ فقرے ہیں تو آستائی کے بیس بول ہیں۔" [1]

2. { مجازا } ہر بات کا ابتدائی حصہ۔

"ارے نگوڑے مرزا نماز کی آستائی تو مجھے یاد ہے، انترہ بھول گئی، بتا الحمد کے بعد کیا پڑھوں۔" [2]

مترادفات[ترمیم]

اِبْتِدا شُرُوع

مرکبات[ترمیم]

آسْتائی بَرَن

حوالہ جات[ترمیم]

    1   ^ ( 1958ء، لکھنو کا شاہی اسٹیج، 18 )
    2   ^ ( 1928ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، 13، 14، 9 )