آشفتگی
آشُفْتَگی {آ + شُف + تَگی} (فارسی)
آشفتن آشُفْتَہ آشُفْتَگی
فارسی مصدر آشفتن سے علامت مصدر ن گرا کر گی بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے آشفتگی بنا۔ اردو میں سب سے پہلے 1707ء میں ولی کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم کیفیت (مؤنث - واحد)
جمع: آشُفْتَگِیاں {آ + شُف + تَگِیاں}
جمع غیر ندائی: آشُفْتَگِیوں {آ + شُف + تَگِیوں (و مجہول)}
معانی[ترمیم]
1. پریشانی، حیرانی، سراسیمگی ۔
؎ سبب آشفتگئ دل کا نہیں کھلتا ہے
شاید الجھا ہے تری زلف گرہ گیر کے ساتھ [1]
2. بکھراہونے کی کیفیت، پراگندگی، انتشار۔
؎ آشفتگی نے نقش سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا [2]
بدنظمی، ابتری۔
"بباعث سرکشی تمھارے سرداران و آشفتگی اندرونی کے ..... سرکار بھوٹان کمزور ہوگئی ہے۔" [3]
3. فریفتگی، عاشقی، دیوانگی (فرہنگ آصفیہ، 174:1)
؎ وائے خود رفتگی تری ناداں
ہائے آشفتگی تری ناداں [4]
4. برہمی، غصہ۔
"نازنین کا چہرہ سرخ ہو گیا، نہایت آشفتگی کے ساتھ بولی، اے تمھاری بھی اتنی مجال ہوئی کہ مجھے زبردستی لے جاؤ گی۔" [5]
مترادفات[ترمیم]
پَراگَنْدَگی حَیرانی وارَفْتَگی
متضادات[ترمیم]
مُرَتَّبْ بے اِعتِنائی
رومن[ترمیم]
Aashuftagi
تراجم[ترمیم]
انگریزی : Uneasiness; perturbation; distraction;
حوالہ جات[ترمیم]
1 ^ ( 1932ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، 55 ) 2 ^ ( 1869ء، غالب، دیوان، 143 ) 3 ^ ( 1864ء، عہدنامہ جات (ترجمہ)، 332:7 ) 4 ^ ( 1829ء، قصہ فرہاد و شیریں، 40 ) 5 ^ ( 1914ء، حسن کا ڈاکو، 6 )