سورہ فاتحہ

ویکی لغت سے

بِسْمِ اللّٰہ ِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہ' وَنُصَلِیّ عَلیٰ حَبِیْبِہ الکریِم سورہ فاتحہ کے اسماء اِس سورۃ کے متعدد نام ہیں۔ فاتحہ' فاتحۃ الکتاب' ام القرآن' سورۃ الکنز' کافیۃوا فیۃ' شافیۃ' شفا' سبع مثانی' نور' رقیۃ' سورۃ الحمد' سورۃ الدعا' تعلیم المسئلہ ' سورۃ المناجاۃ' سورۃ التفویض' سورۃ السوال' اُم ّالکتاب' فاتحۃ القرآن ' سورۃ الصلوۃ' اس سورۃ میں سات آیتیں' ستائیس کلمے' ایک سو چالیس حرف ہیں' کوئی آیت ناسخ یا منسوخ نہیں ۔شان نزول یہ سورۃ مکّہ مکرّمہ یا مدینہ منوّرہ یا دونوں میں نازل ہوئی۔ عمرو بن شرجیل سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا میں ایک ندا سنا کرتا ہوں جس میں اِقْرَأْ کہا جاتا ہے ورقہ بن نوفل کو خبر دی گئی' عرض کیا جب یہ ندا آئے آپ باطمینان سنیں اس کے بعد حضرت جبریل نے حاضر ِ خدمت ہو کر عرض کیا' فرمائیے بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اَلْحَمدُ للّٰہ ِ رَبِّ الْعَالَمِین اس سے معلوم ہوتاہے کہ نزول میں یہ پہلی سورت ہے مگر دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سورئہ اِقْرَأ نازل ہوئی' اس سورت میں تعلیما ًبندوں کی زبان میں کلام فرمایا گیا ہے احکام :مسئلہ :نماز میں اس سورت کا پڑھنا واجب ہے امام و منفرد کے لئے تو حقیقتاً اپنی زبان سے اور مقتدی کے لئے بقرأت حکمیہ یعنی امام کی زبان سے ۔ صحیح حدیث میں ہے ۔ قِرَاء ۃُ الاِمَامِ لَہ' قِرَاء ۃٌ امام کا پڑھنا ہی مقتدی کا پڑھنا ہے۔ قرآن پاک میں مقتدی کو خاموش رہنے اور امام کی قرات سننے کا حکم دیا ہے۔ اِذا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْ الَہ' وَاَنْصِتُوْا 'مسلم شریف کی حدیث ہے اِذَاقَرَأَفَانْصِتُوْا جب امام قرأت کرے تم خاموش رہو اور بہت احادیث میں یہی مضمون ہے مسئلہ :نماز ِجنازہ میں دعا یاد نہ ہو تو سورئہ فاتحہ بہ نیت دُعا پڑھنا جائز ہے بہ نیت قرأت جائز نہیں (عالمگیری) سورئہ فاتحہ کے فضائل : احادیث میں اس سورہ کی بہت سے فضیلتیں وارد ہیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا توریت و انجیل و زبور میں اس کی مثل سورت نہ نازل ہوئی (ترمذی) ایک فرشتہ نے آسمان سے نازل ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام عرض کیا اور دو ایسے نوروں کی بشارت دی جو حضور سے پہلے کسی نبی کو عطا نہ ہوئے' ایک سورئہ فاتحہ ' دوسرے سورئہ بقر کی آخری آیتیں( مسلم شریف) سورئہ فاتحہ ہر مرض کے لئے شفا ہے۔ (دارمی) سورئہ فاتحہ سو مرتبہ پڑھ کر جو دعا مانگے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ (دارمی) استعاذہ مسئلہ تلاوت سے پہلے اَعُوْذُ بِاللّٰہ ِ مِنَ الشََّیَطَانِ الرَّجِیم پڑھنا سنت ہے(خازن) لیکن شاگرد استاد سے پڑھتا ہو تو اس کے لئے سنت نہیں(شامی) مسئلہ نماز میں امام و منفرد کے لئے سبحان سے فارغ ہو کر آہستہ اعوذ الخ پڑھنا سنت ہے۔(شامی) التسمیہ مسئلہ : بِسْمِ اللّٰہ ِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم قرآن پاک کی آیت ہے ' مگر سورئہ فاتحہ یا اور کسی سورہ کا جزو نہیں' اسی لئے نماز میں جہر کے ساتھ نہ پڑھی جائے' بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت صدیق و فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما نماز الْحَمدُ للّٰہ ِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ سے شروع فرماتے تھے۔ مسئلہ :تراویح میں جو ختم کیا جاتا ہے اس میں کہیں ایک مرتبہ بسم اللّٰہ جہر کے ساتھ ضرور پڑھی جائے تاکہ ایک آیت باقی نہ رہ جائے مسئلہ :قرآن پاک کی ہر سورت بسم اللّٰہ سے شروع کی جائے۔ سوائے سورئہ برأت کے مسئلہ سورئہ نمل میں آیت سجدہ کے بعد جو بسم اللّٰہ آئی ہے وہ مستقل آیت نہیں بلکہ جزو ِآیت ہے' بلا خلاف اس آیت کے ساتھ ضرور پڑھی جائے گی نماز جہری میں جہراً ' سری میں سراً مسئلہ :ہر مباح کام بسم اللّٰہ سے شروع کرنا مستحب ہے' ناجائز کام پر بسم اللّٰہ پڑھنا ممنوع ہے سورئہ فاتحہ کے مضامین اس سورت میں اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ربوبیت رحمت مالکیت استحقاق عبادت توفیق خیر' بندوںکی ہدایت توجہ الیٰ اللّٰہ اختصاص عبادت' استعانت طلب رشد آداب دعا صالحین کے حال سے موافقت گمراہوں سے اجتناب و نفرت دنیا کی زندگانی کا خاتمہ جزاء اور روز جزاء کا مصرح و مفصل بیان ہے اور جملہ مسائل کا اجمالاً حمدمسئلہ :ہر کام کی ابتداء میں تسمیہ کی طرح حمد الہٰی بجالانا چاہیئے مسئلہ :کبھی حمد واجب ہوتی ہے' جیسے خطبہئ جمعہ میں' کبھی مستحب جیسے خطبہئ نکاح و دعا وہرا مرذیشان میں اورہر کھانے پینے کے بعد کبھی سنت مؤکدہ جیسے چھینک آنے کے بعد (طحطاوی) رَبُّ الْعَالَمِیْنَ میں تمام کائنات کے حادث ممکن محتاج ہونے اور اللّٰہ تعالیٰ کے واجب قدیم ازلی ابدی حی قیوم قادر علیم ہونے کی طرف اشارہ ہے جن کو رب العالمین مستلزم ہے دو لفظوں میں علم الہیات کے اہم مباحث طے ہوگئے۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ملک کے ظہور تام کا بیان اور یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں کیونکہ سب اس کے مملوک ہیں اور مملوک مستحق عبادت نہیں ہوسکتا اسی سے معلوم ہوا کہ دنیا دارالعمل ہے اور اس کے لئے ایک آخر ہے جہان کے سلسلہ کو ازلی و قدیم کہنا باطل ہے اختتام دنیا کے بعد ایک جزاء کا دن ہے اس سے تناسخ باطل ہوگیا اِیَّاکَ نَعْبُدُ ذکر ذات و صفات کے بعد یہ فرمانا اشارہ کرتا ہے کہ اعتقاد عمل پر مقدم ہے اور عبادت کی مقبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے ' مسئلہ نَعْبُدُ کے صیغہ جمع سے ادا بجماعت بھی مستفاد ہوتی ہے اور یہ بھی کہ عوام کی عبادتیں محبوبوں اور مقبولوں کی عبادتوںکے ساتھ درجہئ قبول پاتی ہیں مسئلہ :اس میں ردّ ِشرک بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کسی کے لئے نہیں ہوسکتی وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ میں یہ تعلیم فرمائی کہ استعانت خواہ بواسطہ ہو یا بے واسطہ ہر طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے حقیقی مستعان وہی ہے باقی آلات و خدام و احباب وغیرہ سب عون الہٰی کے مظہر ہیں بندے کو چاہئے کہ اس پر نظر رکھے اور ہر چیز میں دستِ قدرت کو کارکن دیکھے اس سے یہ سمجھنا کہ اولیاء وانبیاء سے مدد چاہنا شرک ہے ' عقیدہ باطلہ ہے کیونکہ مقربانِ حق کی امداد' امدادِ الہٰی ہے استعانت بالغیر نہیں اگر اس آیت کے وہ معنی ہوتے جو وہابیہ نے سمجھے تو قرآن پاک میں اَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّۃٍ اور اِسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْروَالصَّلٰوۃِ کیوں وارد ہوتا اور احادیث میں اہلُ اللّٰہ سے استعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی اِھْدِنَاالصِّراط الَمُستَقِیْمَ معرفت ذات و صفات کے بعد عبادت اس کے بعد دعا تعلیم فرمائی اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ بندے کو عبادت کے بعد مشغول دعا ہونا چاہئے ۔ حدیث شریف میں بھی نماز کے بعد دعا کی تعلیم فرمائی گئی ہے۔ (الطبرانی فی الکبیروالبیہقی فی السنن) صراط مستقیم سے مراد اسلام یا قرآن یا خلق نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم یا حضور کے آل و اصحاب ہیں' اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صراطِ مستقیم طریق اہلِ سنت ہے جو اہلِ بیت و اصحاب اور سنت و قرآن و سواد اعظم سب کو مانتے ہیں صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ جملہ اولیٰ کی تفسیر ہے کہ صراط مستقیم سے طریق مسلمین مراد ہے اس سے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں کہ جن امور پر بزرگانِ دین کا عمل رہا ہو وہ صراط مستقیم میں داخل ہے غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ اس میں ہدایت ہے کہ مسئلہ طالب حق کو دشمنانِ خدا سے اجتناب اور ان کے راہ و رسم و ضع و اطوار سے پرہیز لازم ہے ' ترمذی کی روایت ہے کہ مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ سے یہود اور ضَآلِّیْنَ سے نصاریٰ مراد ہیں مسئلہ: ضاد اور ظاء میں مبائنت ذاتی ہے' بعض صفات کا اشتراک انہیں متحد نہیں کرسکتا لہٰذا غیرالمغظوب بظاء پڑھنا اگر بقصد ہو تو تحریف قرآن و کفر ہے ورنہ ناجائز مسئلہ :جو شخص ضاد کی جگہ ظا پڑھے اس کی امامت جائز نہیں ( محیط برہانی) آمِیْنَ اس کے معنی ہیں ایسا ہی کریا قبول فرما 'مسئلہ :یہ کلمہئ قرآن نہیں مسئلہ :سورئہ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا سنت ہے ' نماز کے اندر بھی اور نمازکے باہر بھی مسئلہ :حضرت امام اعظم کا مذہب یہ ہے کہ نماز میں آمین اخفا ء کے ساتھ یعنی آہستہ کہی جائے تمام احادیث پر نظر اور تنقید سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جہر کی روایتوں میں صرف وائل کی روایت صحیح ہے اس میں مَدَّبِھَا کا لفظ ہے جس کی دلالت جہر پر قطعی نہیں جیسا جہر کا احتمال ہے ویسا ہی بلکہ اس سے قوی مدہمزہ کا احتمال ہے اس لئے یہ روایت جہر کے لئے حجت نہیں ہوسکتی دوسری روایتیں جن میں جہر ورفع کے الفاظ ہیں ان کی اسناد میں کلام ہے