آگ
آگ {آگ} (سنسکرت)
اگنی آگ
سنسکرت میں اصل لفظ اگنی ہے پراکرت میں اگّی ہندی میں اگن ہے۔ اردو زبان میں آگ مستعمل ہے۔ تاریخی حقائق اور اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اصل ماخذ سنسکرت معلوم ہوتی ہے۔ اردو میں آگ بطور اسم اور بطور صفت دونوں طرح سے مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1582ء میں "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مؤنث - واحد)
معانی
[ترمیم]نار، آتش، شعلہ، عناصر اربعہ میں سے ایک عنصر کا نام۔
"آگ کی جستجو میں جانا اور پیغمبری لے کر پلٹنا موسٰی کے وقت سے اس وقت تک تو کبھی دیکھا نہیں گیا۔" [1]
2. دھوپ کی تیزی، سخت گرمی، لو۔
؎ آگ برسائے فلک یا آب حیوان بہار
زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے پشیمان بہار [2]
3. تپش، حدّت جو جسم کے اندر خون میں محسوس ہو۔
؎ حال گرمی محبت کا نہ پوچھو ہم سے
آگ رہتی ہے دماغوں میں تپش جانوں میں [3]
4. سوزش، تپک، جلن۔
"اس مرہم سے تو پھوڑے میں آگ پڑ گئی۔" [4]
5. آتشک کا مرض، باؤ فرنگ۔
"اس کے حسن پر نہ جاؤ آگ میں پھک رہی ہے۔" [5]
6. چرپراہٹ، جھال۔
"کبابوں نے تو زبان سے حلق تک آگ لگا دی۔" [6]
7. سوز و گداز، لگن، عشق و محبت کا جوش۔
"چاہتے تھے کہ جو جوش اور آگ ان میں ہے وہی دوسروں میں بھی ہو۔" [7]
8. مامتا، خون کا جوش۔
"اب آگ میری کوک کی کیونکر یہ بجھے گی ..... بے طرح ہے بھڑکی۔" [8]
9. شوق یا اشتیاق کی شدت۔
؎ دوپٹا و گلنار دکھلا گئے
نئے سرے سے پھر آگ برسا گئے [9]
10. غصہ، جھونجھل۔
؎ جو اتنا گرم ہو کر آج تو اے شعلہ خو آیا
ہوا خواہوں نے تیرے آگ کچھ بھڑکائی ہووے گی
11. حسد، جلن، جلاپا۔
؎ سوت کی آگ بجھے سوت کے بچوں سے جلی
ان جہنم کے شراروں کی شرارت نہ گئی [10]
12. فتنہ و فساد، ہنگامہ۔
"ابن رشد سے جن لوگوں کو حسد تھا ..... ان لوگوں نے اس آگ کو اور بھڑکایا۔" [11]
13. عداوت، کینہ، دشمنی۔
"خدا معلوم تمیزاً کو سوکن کے بچوں کی ایسی کیا آگ پڑی تھی کہ ہر وقت ان کی بربادی پر کمربستہ تھیں۔" [12]
14. بھوک پیاس کی شدت۔
؎ دل تفتگی نے مارا مجھ کو کہاں مژہ دے
اک قطرہ آب تا میں اس آگ کو بجھاؤں [13]
15. خواہش نفسانی، شہوت، ہوس۔
"آشناؤں کو تو بلاتی ہے اور اپنا رنگ جماتی ہے، ترے جسم میں آگ بھری ہے۔" [14]
16. چمک دمک، روشنی۔
؎ وہاں ہے آب رخ یاں آتش دل
جدھر دیکھو ادھر ہے جلوہ گر آگ [15]
انگریزی ترجمہ
[ترمیم]Fire; flame; heat, excessive heat; (met.) anger, passion; love, lust; hatred; jealousy; intense; hunger; venereal disease
معانی2
[ترمیم]صفت ذاتی [16]
غضبناک، خشمگیں۔
"برقنداز آگ ہو گیا اور اس نے دو تین قیدیوں کی امداد سے مجکو اتنا مارا کہ میں بے ہوش ہو کر گر پڑا۔" [17]
2. { مجازا } حار، گرم، خون میں گرمی اور سوداویت پیدا کرنے والا، جیسے : ابھی پانی نہیں پڑا آج کل کے آم آگ ہوتے ہیں۔ (امیراللغات، 145:1)
؎ ہجر میں آگ ہو گیا پانی
دل کو کر دیتی ہے کباب شراب [18]
انگریزی ترجمہ2
[ترمیم]Hot as fire, very hot; fiery, hot-tempered; sharp, quick; scarce, dear
مترادفات
[ترمیم]لُو آتَش جَلَن عَنّاد شَہْوَت حِدَّت اَگَن جھُلْسا جَوالا جوالا
مرکبات
[ترمیم]آگ بَگُولا، آگ بوٹ، آگ پانی، آگ کا پتَنْگا، آگ کا پیڑ، آگ کا پھُول، آگ کا دَرْیا، آگ کا کُرَہ، آگ کا کھیل، آگ کا گھَر، آگ کا ہَتھْیار، آگ کا پُتْلا
روزمرہ جات
[ترمیم]آگا تاگا لینا
آءو بھگت کرنا، خاطر تواضع کرنا۔
چاپلوسی کی عادت بالکل نہیں تھی اور افسروں کا آگا تاگا لینا بھی وہ سخت معیوب سمجھتے تھے۔" [19]
ذمہ داری، دیکھ بھال۔
چھالیا کا آگا تاگا تو خد بیچاری اماں کا بھلا کرے انھوں نے لے لیا۔" [20]
آگ میں جلانا
رشک و حسد یا سوز عشق میں مبتلا کرنا۔
؎ اللہ ری سوزش دل اے یار
مارا کس آگ میں جلا کر [21]
آگ میں جلنا
آگ میں جلانا کا فعل لازم ہے۔
؎ تپ الفت کی حرارت نہیں کس کو اے کیف
ایک ہی آگ میں سب خلق خدا جلتی ہے [22]
آگ میں جھونکنا
آگ میں ڈالنا، جلانا۔
چتوڑ کے راجہ نے خاندان میں جھونک کر خود بادشاہ سے آ کر پناہ مانگ لی۔" [23]
مصیبت میں پھنسانا، بلا میں گرفتار کرنا۔
یہ نہ سمجھنا کہ مجھے تمھارے ساتھ ہمدردی نہیں یا یہ کہ میں جان بوجھ کر تمھیں آگ میں جھونک رہا ہوں۔" [24]
لڑکی کو ایسی جگہ بیاہ دینا جہاں اسے ہر طرح کی تکلیف ہو۔
؎ پہلے دریافت خوب کر نہ لیا
آگ میں مجھ کو لے کے جھونک دیا [25]
آگ میں ڈالنا
نظرانداز کرنا، مٹانا۔
حق نمک کو آگ میں ڈال کر بادشاہ کا کام تمام کر دے۔" [26]
آگ مارنا
ایندھن کو تھوڑے تھوڑے وقفے سے انگیٹھی یا انجن میں ڈالنا، ایندھن جھونکنا۔
بہت حالتوں میں اطراف میں آگ مارنا عمدہ ہوتا ہے یعنی کوئلے کو چولھے میں باری باری سے اطراف پر ڈالا جاوے۔" [27]
آگ مٹنا
جلن یا تپک جاتی رہنا، سوزش بجھنا، جیسے : اس مرہم سے زخموں کو سکون ملا آگ مٹ گئی۔ (ماخوذ : امیراللغات، 157:1)
حسد باقی نہ رہنا، جلاپا ختم ہو جانا۔ (امیراللغات، 157:1)
امنگ جاتی رہنا، ولولہ یا شوق جاتا رہنا۔
؎ اب گریہ سے مٹے کیا دل بے تاب کی
آگ آتش برق کبھی بجھتی نہیں باراں سے [28]
خواہش نفسانی کی تسکین ہونا۔ (عام لوگوں کی زبانوں پر جاری)۔
آگ میں (اور) آگ لگانا
دکھے ہوئے دل کو اور دکھانا، جلے کو اورجلانا۔
؎ داغ پر داغ مرے دل کو دیا کرتے ہیں
آگ میں آگ وہ ہیں اور لگائے جاتے [29]
غصے یا فتنے فساد کو اور بڑھانا۔
کوئی کہتا ہے کہ حکومت پاگل ہو گئی ہے کوئی آگ میں آگ لگاتا ہے کہ اسم نویسی کا یہ طریقہ عہد رقیّت (غلامی) کی یادگار ہے۔" [30]
آگ میں بھلسنا
جل کر سیاہ ہو جانا۔
چیچک سے بدن کا وہ حال ہو گیا کہ جیسے آگ میں بھلس گیا ہے۔" [31]
آگ میں بھوننا
جلانا، انتہائی سوزش میں مبتلا کرنا۔
بخار کی وہ شدت ہے کہ جیسے کوئی آگ میں بھونے ڈالتا ہے۔" [32]
آگ میں پانی ڈالنا
جھگڑا مٹانا، لڑائی کو دبانا؛ غصے کو دھیما کرنا۔ (فرہنگ آصفیہ، 201:1)
آگ میں پڑنا
مصیبت یا آفت میں خود کو مبتلا کرنا، دوسرے کی بلا اپنے سر لینا۔
؎ یہ موج حوادث سے ہیں لڑنے والے یہ غیروں کی ہیں آگ میں پڑنے والے [33]
آگ میں پھاندنا
کسی تکلیف دہ کام یا شجاعانہ عمل میں ہاتھ ڈالنا۔
جب سنا یہی سنا کہ آگ میں پھاند پڑا۔" [34]
آگ لینا
آگ پکڑنا، آگ سے جلنے لگنا۔
پھر آہستہ آہستہ تیل کو داخل کیا جاتا ہے جوکہ گرم اینٹوں سے آگ لے لیتا ہے۔" [35]
آگ لینے (کو) آنا
آتے ہی پلٹ جانا، کھڑے کھڑے آنا اور چلا جانا۔
؎ ابھی آئے ابھی کہنے لگے لو جاتے ہیں
آگ لینے کو جو آئے تھے تو آنا کیا تھا [36]
آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے
ایسے موقع پر بولتے ہیں جب کسی شخص کو توقع کے خلاف کوئی چیز حاصل ہو جائے۔
ہندوستان آ کر موصوف کا نصیب جاگ اٹھا وہی مثل ہوئی کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے۔" [37]
آگ لگا (کر) پانی کو ڈوڑنا
ایذا پہنچا کر اظہار ہمدردی کرنا، شر پیدا کر کے اس کے دفع کرنے میں سرگرمی دکھانا۔
طاہر بھائی آپ بھی آگ لگا کر پانی کو دوڑنے والے شخص ہیں کیسی کیسی باتیں کرنی آتی ہیں، بیرسٹری تو خوب چلے گی۔" [38]
آگ لگانا
کسی چیز کو آگ دینا، جلانا۔
لوگوں نے جا کر ان لکڑیوں کے ڈھیر پر سے پتھر دور رکھے اور آگ لگا دی۔" [39]
جلن یا سوزش پیدا کرنا، حرارت پیدا کرنا۔
؎ پڑا جو عکس رخ آتشیں ساقی کا
لگا دی شعلہ مے نے دل خراب میں آگ [40]
تیزی اور چرپراہٹ پیدا کرنا۔
کبابوں نے تو زبان سے حلق تک آگ لگا دی۔" [41]
سوز اشتیاق کو ابھارنا، بے قرار کرنا۔
؎ خبر آمد گل کیسی سنائی صیاد یوں ہی ہم جلتے تھے اور آگ لگائی صیاد [42]
کسی جذبے میں شدت پیدا کرنا۔
اب انتقام کی آگ تیرے تن بدن میں لگا دی۔" [43]
رشک و حسد پیدا کرنا، جلاپے کی آگ بھڑکانا۔
؎ وہ مجھ سے بزم میں ہنستا رہا رقیب جلے
لگائی گرمی صحبت نے انجمن میں آگ [44]
لگائی بجھائی کرنا، برافروختہ کرنا، بھڑکانا، غصہ دلانا۔
جعفری بیگم صاحبہ خراماں خراماں انگنائی میں آئیں اور آگ لگاتی ہوئی آئیں۔" [45]
آفت ڈھانا، مصیبت لانا
ابھی اس دیو کو جگا دوں گی اور وہ آگ لگا دوں گی کہ بجھانا محال ہو گا جینا اشکال ہو گا۔" [46]
لوگوں میں ہلچل ڈال دینا، پرسکون فضا میں تموج پیدا کر دینا، ایک نیا فتنہ اٹھا دینا، ہنگامہ مچا دینا۔
خوب آگ لگائی اور سارے ہندوستان میں شہرت دے دی کہ کالج کے لڑکے عیسائی کیے جاتے ہیں۔" [47]
مہنگا سودا خریدنا۔
ماما عظمت تو ہر سودے میں آگ لگاتی ہے۔" [48]
ہاتھ رنگنا، غبن کرنا۔ (فرہنگ آصفیہ، 197:1؛ نوراللغات، 128:1)
چھوڑ دینا، ترک کرنا، القط کرنا۔
لاگ کو آگ لگاءو۔" [49]
تلف کرنا، لٹانا، برباد کرنا۔
شراب خوری اور قمار بازی میں ساری دولت کو آگ لگا دی۔" [50]
{ کبوتر بازی } بھاری خرچ کرنا، دھوم دھام اور اللّے تللّے سے روپیہ اڑانا، جیسے : تمہارے بڑوں نے شادی میں کونسی آگ لگائی تھی جو تم لگاءو گے۔
چوپٹ کر دینا، بگاڑ دینا، بے ڈھنگا اور بد وضع کر دینا، جیسے : ایک قمیص پر کیا منحصر ہے? جس چیز کو سیتا ہے اسی کو آگ لگا کر رکھ دیتا ہے۔
صاحبزادی گوٹ لگانے کیا بیٹھیں کہ سارے پاجامے میں آگ لگا کر رکھ دی۔" [51]
تباہ و برباد کرنا، اجاڑنا، مٹا دینا، فنا کر دینا۔
اسکول و کالج ہوش و خرد سب کو آگ لگا دو۔" [52]
سرخ پھولوں کے تختے، چراغاں یا شفق میں جلتی ہوئی آگ کا سا سماں پیدا کرنا (بطور تشبیہ)۔
؎ گلشن کے اور پھولوں کی لے باغباں خبر اک شعلہ رو نے آگ لگا دی گلاب میں [53]
(بیزاری یا نفرت سے ٹھکرا دینے کے موقع پر) بھاڑ میں جھونکنا، ٹھکرا دینا، جہنم میں ڈالنا۔
؎ آسودہ قفس کو بھلا گلستاں سے کیا میری طرف سے آگ لگا دو بہار کو [54]
بھوک پیاس بڑھا دینا۔ (امیراللغات، 156:1؛ نوراللغات، 128:1)
آگ لگنا۔
آگ لگانا کا فعل لازم ہے۔
تمھاری ایسی احمقانہ باتوں سے بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔" [55]
آگ سَر د کرنا
آگ ٹھنڈی کرنا، آگ بجھانا۔
شاید ساس کے شفقت بھرے آنسو دوزخ کی آگ کو سرد کر دیں تو کر دیں۔" [56]
شوق یا خواہش کا مٹانا، جیسے : ایک مدت تک آتش اشتیاق بھڑکتی رہی یہاں تک کہ امتداد زمانہ نے یہ آگ سرد کر دی۔
آگ سلگانا
آگ روشن کرنا، چولھا جلانا۔
صبر کرو آتی ہوں، آگ واگ سلگاتی ہوں۔" [57]
فتنہ و فساد کھڑا کرنا، بھڑکانا
؎ گوش زد اس کے کیا اعدا نے میرا حرف عشق کیا رہا گھر جلنے میں اب آگ وہ سلگا چکے [58]
آگ سلگنا
آگ سلگانا کا فعل لازم ہے۔
؎ تیغ سن سن جو چلی آنچ سے جلنے لگے دل
آگ سلگی تو ہوا میں ہوا بجھنا مشکل [59]
آگ سے پانی ہونا
غصہ اترنا، غصہ ٹھنڈا پڑ جانا، نرم پڑ جانا۔
چار باتیں ایسی کیں کہ وہ آگ سے پانی ہو گئے۔" [60]
آگ دینا
(کسی چیز کو) جلانا، آگ لگانا۔
؎ باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے [61]
روشن کرنا، چمکا دینا۔
؎ دی آگ رنگ گل نے واں اے صبا چمن کو
یاں ہم جلے قفس میں سن حال آشیاں کا [62]
جل اٹھنا، شرار پیدا کرنا۔
؎ عشق جس دل میں ہو کیوں کر نہ شرار اس سے اٹھیں
چوٹ کھا کر جو نہ دے آگ وہ پتھر ہی نہیں [63]
(نفرت اور بے تعلقی کے اظہار کے موقع پر) بھاڑ میں ڈالنا، چولھے میں جھونکنا، غارت کرنا۔
؎ جوش خجلت سے رہو تم حضرت دل آب آب
آگ دے دوں میں تو ایسی آہ بے تاثیر کو [64]
آگ دھونا
آگ جھاڑنا، آگ صاف کرنا، انگارے سے راکھ دور کرنا۔
ذرا آگ دھو کر چلم پر رکھنا۔" [65]
آگ سرد ہونا
آگ سرد کرنا کا فعل لازم ہے۔
وہ آگ نہیں سرد ہوتی جب تک کہ خداوند تعالٰی اس کو سرد نہ کرے۔" [66]
آگ جھڑنا
سنگ و چقماق وغیرہ سے آگ نکلنا۔
؎ پتھر کی طرح آگ جھڑی جسم زار سے
جب میرے استخوان لگے استخوان پر [67]
شررگرنا، شعلہ نکلنا۔
؎ آہ آتش فشاں جو کرتا ہوں
آگ جھڑتی ہے آشیانے سے [68]
آگ جھونک دینا
شعلہ بھر دینا، سوزش سے پر کر دینا۔
؎ جھونک دی عشق نے جب اس دل بیتاب میں
آگ غل پڑا یہ کہ گری معدن سیماب میں آگ [69]
آگ خاموش ہونا
آگ کی تیزی کم ہو جانا، آگ بجھ جانا۔
؎ آگ خاموش جو ہوتی ہے بھڑکتی ہے سوا
دو گے تسکین تو ہو گا مرا دل بے تاب [70]
خواہش یا جوش کا مدھم پڑ جانا۔
؎ رہتا نہیں سیر ہو کے پھر جوش ہو جاتی ہے دل کی آگ خاموش [71]
فتنہ و فساد فرو ہونا، جیسے : ابھی آگ خاموش نہیں ہوئی بدامنی کے دنوں میں وہاں جانا دانائی کے خلاف ہے۔
آگ ٹھنڈی ہونا
آگ ٹھنڈی کرنا کا فعل لازم
مصاحب بیگ کی آگ ابھی ٹھنڈی نہ ہوئی تھی کہ ایک شعلہ اور اٹھا۔" [72]
آگ جاگ اٹھنا
بجھی ہوئی آگ کا مشتعل ہونا۔ (نوراللغات، 124:1)
افسردہ شوق اور ولولہ پھر ابھرنا۔
؎ تو نے لگائی آ کے یہ کیا آگ اے بسنت
جس سے کہ دل کی آگ اٹھی جاگ اے بسنت [73]
آگ جوڑنا
آگ جلانے کے لیے لکڑیاں اپلے قرینے سے لگانا، آگ سلگانا۔ (فرہنگ آصفیہ، 197:1)
آگ جھاڑنا
انگارے سے راکھ صاف کرنا، اپلے یا لکڑی میں سے راکھ ہٹا کر آگ توڑنا۔
آگ جھاڑ کر چلم پر رکھو۔" [74]
آگ پھیلانا
دور تک آگ کی چنگاریاں یا شعلے پہنچانا۔
؎ یہ جل ترنگ نے پھیلا دی آگ پانی پر کہ جل کے گر پڑے خود میگھ راگ پانی پر [75]
فساد پھیلانا، فتنہ برپا کرنا۔ (امیراللغات، 125:1)
آگ تاپنا
آگ سے ہاتھ پاءوں سینکنا۔
آگ تاپتے قلیوں کے حلقہ میں بیٹھ کر ..... بدن کو گرمی پہنچانا ناممکن تھا۔" [76]
آگ تلووں سے لگنا
نہایت غصہ ہونا، بر افروختہ ہونا۔
؎ عاشق دل خوں شدہ کے آگ تلووں سے لگی
غیر کے سینے پہ وہ پائے حنائی دیکھ کر [77]
آگ ٹھنڈی کرنا
آگ پر پانی یا راکھ وغیرہ ڈال کر اس کی سوزش ختم کر دینا، آگ بجھا دینا۔
تھوڑی دیر پکنے دیں بعد میں آگ ٹھنڈی کر دیں۔" [78]
فتنہ و فساد فرو کرنا۔ (نوراللغات، 124:1)
آگ پھونکنا
منھ یا پھکنی وغیرہ سے ہوا دے کر آگ تیز کرنا۔
؎ بد حال بھوک سے ہیں یہ اطفال بے نوا
میں آگ پھونکتا ہوں تو کر کام دوسرا [79]
غصہ دلانا، بھڑکانا۔
یہ آگ آپ ہی کی پھونکی ہوئی ہے۔" [80]
فتنہ و فساد کو ہوا دینا۔
؎ پہنچے شریر دشت سے دارالبوار میں
جو پھونکتے تھے آگ وہ پھکتے ہیں نار میں [81]
شوق اور ولولہ بڑھانا۔
؎ باد نوروزی نے پھونکی داغہائے تن میں آگ
یاں برنگ غنچہ لالہ ہے پیراہن میں آگ [82]
سوزش اور جلن پیدا کرنا۔
؎ بادہ گل رنگ نے وہ آگ تن میں پھونک دی
نزع کے دم بھی نہ جو پانی کے ساغر سے بجھی [83]
سخت پیاس لگا دنیا۔ (نوراللغات، 123:1)
آگ پر دھَرنا | رکھنا
جلانا، پھونکنا، سلگانا۔
؎ کہتا ہے کہ نامے کو ترے آگ پہ رکھا
قاصد نے تولو اور سنائی یہ خبر گرم [84]
پکانا، گرم کرنا۔
گھی جم گیا ہے ذرا آگ پر رکھ دو۔" [85]
آگ پر سیدھا کرنا
لوہے وغیرہ کو بار بار تپا کر اس کا خم نکالنا۔
؎ کرے گی صاف چین اون ابرووں کی گرمی صہبا
کماں رخ کر گئی جب پھر وہ ہو گی آگ پر سیدھی [86]
آگ پر قائم ہونا
آنچ لگنے سے ہوا میں نہ اڑنا (پارے وغیرہ کے لیے مستعمل)
؎ اے مہوس دل کو خط شعلہ رو سے عشق ہے
آگ پر قائم یہاں بوی سے پارا ہو گیا [87]
آگ پکڑنا
کسی چیز کا جلنے لگنا، کسی چیز میں آگ لگنا۔
اس کی وجہ سے بارود کا آگ پکڑنا بمقابلہ سابق کے زیادہ یقینی اور قابل اعتبار ہو گیا۔" [88]
آگ پر پانی ڈالنا
غصہ فرو کرنا، رفع فساد کرنا، فتنہ مٹانا۔
قریب تھا کہ جنگ وجدال برپا ہو جائے، لیکن آپ کے چند فقروں نے آگ پر پانی ڈال دیا۔" [89]
آگ پر تیل (-روغن) چھڑکنا | ڈالنا | ٹپکانا
شعلے کو اور بھڑکانا، آگ کو تیز کرنا۔
پیر محمد خاں نے اس آگ پر اور بھی تیل ٹپکایا۔" [90]
فساد بڑھانا، ایسی بات کہنا یا ایسا کام کرنا جس سے جھگڑا بڑھے۔"
ان کے طرفدار اخبار نویسوں نے اس آگ پر تیل چھڑکا۔" [91]
کسی کیفیت ولولے یا اشتیاق میں شدت پیدا کرنا۔
وصل علاج ہے یا آگ پر تیل چھڑکنا۔" [92]
آگ پر دکھانا
کسی چیز کو آگ کے قریب لا کر سینکنا۔
جس وقت بھی آپ کو کوئی کام ہو یا کچھ ضرورت پیش آئے یہ چوڑی آگ پر دکھا دیجیے گا، فوراً میرے آدمی آپ کی مدد کو پہنچ جائیں گے۔" [93]
آگ پر روغن کا کام دینا
معاملے کی شدت کو اور تیز کر دینا۔
اسی حالت میں فقیر کا واقعہ گزرا اور اس نے آگ پر روغن کا کام دیا۔" [94]
آگ ابلنا
شدت کی گرمی پڑنا، سخت تپش ہونا۔
بہت گرمی کی جگہ کہتے ہیں کہ زمین سے آگ ابلتی ہے۔" [95]
آگ بجھانا
جلتی ہوئی آگ کو پانی سے یا اور کسی طرح سرد کرنا۔
گئےت ھے آگ بجھانا کو مجرم آگ کے قرار پائے۔" [96]
جھگڑا مٹانا، فتنہ رفع کرنا؛ غصہ فرو کرنا۔
دونوں مزاج کے جھلے ہیں یہ اگ تمھیں بجھاءو گے تو بجھے گی۔" [97]
بھوک پیاس مٹانا، پیٹ بھر کے کھانا کھلانا، تشنگی فرو کرنا۔
ہے کوئی اللہ کا بندہ جو پیٹ کی آگ بجھاوے۔" [98]
دل کی لگی سرد کرنا، جی ٹھنڈا کرنا، سکون پہنچانا۔
؎ بہار نے بھی نہ بلبل تری بجھائی آگ جگر کے پار ہے اب بھی تری نوا ایک ایک [99]
خواہش نفسانی کو مٹانا۔ (نوراللغات، 121:1)
آگ بجھنا
آگ بجھانا کا فعل لازم ہے۔
؎ لگا کے برف میں ساقی صراحی مے لا
جگر کی آگ بجھے جس سے جلا وہ شے لا [100]
جلاپا یا عداوت مٹنا۔
یہ آگ کیا بن سر پھڑ وائے بجھے گی۔" [101]
آگ برسنا
لو چلنا، دھوپ پڑنا، سخت گرمی ہونا۔
شمالی ہندوستان میں تو آگ برس رہی ہے۔" [102]
معرکہ کارزار گرم ہونا، ولیوں کی بوچھاڑ ہونا۔
حریف کی توپوں سے آگ برس رہی ہے فوج کا قدم کیوں کر بڑھے۔" [103]
آگ نکلنا
آگ نکالنا کا فعل لازم ہے
؎ خوف کرنا دل دشمن شکنی سے اے دوست
آگ نکلی جو کسی نے کوئی پتھر توڑا [104]
سخت جلن اور سوزش ہونا، بہت گرمی پڑنا۔
؎ آگے تو اشک پانی سے آ جاتے تھے کبھو اب آگ ہی نکلنے لگی ہے جگر سے یاں [105]
بہت گرم ہونا، تپنا۔
آج تو زمین سے آگ نکلتی ہے۔" [106]
آگ (ہو جانا | ہونا)
ایندھن کا دہک جانا۔
ابھی آگ نہیں ہوئی توا کیا گرم ہو۔" [107]
پھنکنے لگنا، نہایت گرم ہو جانا۔
؎ سوز غم سے ہو گیا ہے آگ سب میرا لہو
پھینک دی قاتل نے ایسی ہو گئی تلوار گرم [108]
بر افروختہ ہو جانا، غصے میں بھر جانا، طیش میں آنا۔
گیان شنکر ..... اس مداخلت بیجا پر آگ ہو گئے۔" [109]
آگ میں (کود پڑنا | کودنا)
سخت سے سخت مصیبت جھیلنے کے لیے آمادہ ہونا، جلنے مرنے سے نہ ڈرنا۔
؎ تیرے عاشق سے پتنگے کو بھلا کیا نسبت
کودنا آگ میں ہے بازی طفلانہ عشق [110]
دوسرے کی مصیبت اپنے سر لینا۔
ہندو مسلمان دونوں کی آگ میں کود پڑتے ہیں۔" [111]
آگ میں گرنا
جلنے مرنے سے نہ ڈرنا، سخت مصیبت جھیلنے کے لیے آمادہ ہونا۔
؎ جان پر کھیلا کیے تفتیدگان سوز عشق
آگ میں گرتے رہے آتش بجان سوز عشق [112]
آگ میں لوٹنا
تڑپنا، بیقرار ہونا، مضطرب ہونا۔
؎ گزرے ہے میر لوٹتے دن رات آگ میں
ہے سوز دل سے زندگی اپنی ہمیں عذاب [113]
رشک و حسد سے جلنا۔
میرے بچوں کو دیکھ کر آگ میں لوٹتی ہے۔" [114]
آگ نکالنا
چقماق یا پتھر وغیرہ سے شعلہ پیدا کرنا۔
؎ سنگ در سے ترے نکالی آگ
ہم نے دشمن کا گھر جلانے کو [115]
آگ (دابنا | دبانا)
انگاروں کو راکھ وغیرہ میں چھپا دینا تاکہ دیر تک باقی رہیں یا ہوا سے پھیل نہ سکیں۔
؎ نفس سرد کے ہاتھوں سے ہوئی ضبط نہ
آہ ہو گیا آگ کا آندھی میں دبانا مشکل [116]
فتنہ و فساد مٹانا، غصہ فرو کرنا۔
بھڑکی ہوئی آگ تمھیں دباءو گے تو دبے گی۔" [117]
سوز عشق و محبت کم کرنا۔
؎ جس تس طرح یہ آگ دبائی ہے میں ابھی
پھر داغ دل سے کر نہ تو اے مرہم اختلاط [118]
آگ دبنا
آگ دابنا کا فعل لازم ہے۔
ان کے عناد و حسد کی آگ دلوں میں دب گئی۔" [119]
آگ بنانا
آگ سلگانا
کہیں درد ہو رہا ہے? آگ بنا لاءوں، کچھ بتلاتے کیوں نہیں" [120]
غصّہ دلانا، بھڑکانا۔
دو باتیں ایسی جڑیں کہ ان کو آگ بنا دیا۔" [121]
آگ بھری ہونا
سوز و گداز ہونا۔
؎ پڑھے مومن نے کیا کیا گرم اشعار
بھری تھی دل میں یا رب کس قدر آگ [122]
جلن اور تپک ہونا۔
پھوڑے میں ایسی آگ بھری ہے کہ پھونکے دیتی ہے۔" [123]
بغض و عداوت یا حسد ہونا۔
سوت کے دل میں میری طرف سے آگ بھری ہوئی ہے۔" [124]
گرم مزاج ہونا، پیٹ میں سوزش ہونا۔ (نوراللغات، 147:1)
آتشک ہونا۔ (نوراللغات، 122:1)
پر شہوت ہونا۔
آشناءوں کو تو بلاتی ہے اور اپنا رنگ جماتی ہے۔ تیرے جسم میں آگ بھری ہے۔" [125]
آگ بھڑکنا
آگ بھڑکانا کا فعل لازم ہے
؎ بھڑکتی ہے دل میں قیامت کی آگ
جہنم سے او میری امید بھاگ [126]
آگ پانی ایک (جگہ | ٹھار) (ملنا | ہونا)
دو مخالف یا متضاد چیزوں کا میل ملاپ یا ایک جگہ جمع ہونا۔
؎ پارسائی اور جوانی کیوں کے ہو
ایک جاگہ آگ پانی کیوں کے ہو [127]
آگ پانی میں لگانا
لڑوا دینا، صابر اور حلیم کو بھڑکا دینا، شرارت سے فتنہ اٹھانا۔
؎ کب شرارت سے باز آتے ہیں
آگ پانی میں یہ لگاتے ہیں [128]
کمال چالاکی یا ہنر دکھانا۔
؎ آگ پانی میں اب لگائی ہے
دیکھیے گا ذرا ہنر میرا [129]
ناممکن بات کر دکھانا۔
؎ بنے تم میرے رونے پر شرر جل کر بنے آنسو
کہو تو آگ پانی میں لگانا کس سے سیکھے ہو [130]
آگ پر لوٹنا
بیقرار ہونا، تڑپنا
؎ آگ پر لوٹا جو شب بھر تب ہوئی صبح امید
حر پریشانی میں تھا تقدیر تھی تدبیر تھی [131]
رشک و حسد سے جلنا۔
کونسی سوت ہے کہ سوت اآغوش شوہر میں دیکھ شام سے صبح تک آگ پر نہیں لوٹتی۔" [132]
کامل فقرا کا آگ پر لوٹتے لوٹتے اس کو اپنے جسم کی رگڑ سے سرد کر دینا۔
؎ ہر روز لوٹتا ہے یہ داغوں سے آگ پر دل
ہجر یار میں حسن ابدال ہو گیا [133]
آگ پڑنا
{ معماری } دھوپ پڑنا۔
آفتاب تھے پڑے آگ یوں قدرت تھے عالم اٹھے جھاگ۔" [134]
سوزش اور جلن ہونا۔
اس مرہم سے تو پھوڑے میں اور آگ پڑ گئی۔" [135]
بہت زیادہ گرمی ہونا، جیسے : آگ پڑ رہی ہے ایسے میں سفر کا کیا موقع ہے۔
کسی چیز کا مہنگا ہونا، گراں ہونا۔ (نوراللغات، 123:1)
عداوت ہونا
خدا معلوم تمیزاً کو سوکن کے بچوں کی ایسی کیا آگ پڑی تھی کہ ہر وقت ان کی بربادی پر کمربستہ تھی۔" [136]
آگ پھانکنا
جھوٹ بولنا، بدگوئی کرنا۔
؎ واعظ کو ہے جو بادہ کشان ولا سے لاگ
منبر پہ ہجومے میں بہت پھانکتا ہے آگ [137]
آگ (پھکنا | پھنکنا)
آگ پھونکنا کا فعل لازم ہے۔
خدا جانے ڈاکٹر نے کونسی دوا پلائی ہے کہ بدن میں آگ پھک رہی ہے۔" [138]
برافروختہ ہونا۔
اس بات کے سنتے ہی ایک آگ ہی تو پھک گئی۔" [139]
آگ پھیلنا
آگ پھیلانا کا فعل لازم ہے
؎ خوف کی جا ہے نہ چھیڑو دل سوزاں کو مرے آگ
پھیلی جو کسی نے کہیں اخگر توڑا [140]
آگ بتانا
داغنا، آگ دکھانا، آتش بازی یا بارود کو شتابہ وغیرہ دے کر جلانا۔
جب خوب اچھی طرح باروت بچھا دی گئی تو آگ بتا کر الگ ہو گئے۔" [141]
آگ برسانا
آگ برسنا کا تعدیہ ہے۔
باہر کا توپ خانہ افغان فوج کے پرہجوم قلب پر آگ برسانے لگا۔" [142]
آگ اٹھانا
راڑ جگانا، لڑائی کھڑی کرنا۔ (فرہنگ آصفیہ، 193:1)
آگ اٹھنا
فتنہ و فساد کا پیدا ہونا، غدر مچنا۔
غدر میں جو ہزاروں جانیں تلف ہو گئیں یہ اگ میرٹھ سے اٹھی تھی۔" [143]
فقرات
[ترمیم]آگ لگے پر کنواں کھودنا
بے وقت کوشش کرنا
جب کوئی شخص اس کام کو کہ پہلے سے کر لینا چاہیے تھا عین وقت پر کرتا ہے، تو کہتے ہیں کہ واہ آگ لگے پر کنواں کھودنے سے حاصل۔" [144]
آگ لگے تو بجھے جل سے، جل میں لگے تو بجھے کہو کیسے
اس موقع پر بولتے ہیں جہاں وہ شخص جس سے فریاد رسی کی امید ہو ظلم کرے۔ (امیراللغات، 157:1)
آگ لگے پر بیری درشن متر دیکھ بھرے سب تن من
مصیبت پڑے پر دشمن خوش ہوتے ہیں اور دوستوں کو رنج اور قلق ہوتا ہے۔ (نجم الامثال، 25)
آگ کھائے منھ جلے ادھار کھائے پیٹ
آگ کھانے سے صرف منہ جلتا ہے مگر آگ سے زیادہ قرض سے ڈرنا چاہیے کیونکہ آگ کی سوزش ظاہری جسم تک محدود رہتی ہے اور قرض کی تکلیف سے جی جلتا ہے، قرض لینا آگ سے جل جانے سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ (ماخوذ : امیراللغات، 154:1)
آگ جانے لہار (-لوہار) جانے دھونکنے والے کی بلا جانے
ماتحت کو تعمیل حکم سے غرض ہوتی ہے انجام سے بحث نہیں ہوتی، جو کوئی کرے گا مزہ چکھے گا۔
حکومت کانوں میں تیل ڈالے بیٹھی ہے کہ آگ جانے لوہار جانے دھونکنے والے کی بلا جانے۔" [145]
آگ بنا دھر راکھ تمباکو
جیسے بغیر آگ دھرے تمباکو بیکار ہے ویسے ہی ناقص تدبیر بھی بیکار ہوتی ہے۔ (نجم الامثال، 23)
آگ میں دھواں کہاں
ہر بات کی بنیاد ضرور ہوتی ہے، ہر علت کے لیے معلول ضرور ہے۔ (نجم الامثال، 23)
آگ اور روئی (کی کیا دوستی | کا کیا ساتھ)
متضاد مزاج والوں کی دوستی قابل اعتبار نہیں، دشمنوں کا کیا میل ملاپ۔ (ماخوذ : نوراللغات، 121:1)
رومن
[ترمیم]Aag
حوالہ جات
[ترمیم]1 ^ ( 1924ء، مکتوبات نیاز، 141 ) 2 ^ ( 1957ء، یاس، گنجینہ، 39 ) 3 ^ ( 1836ء، ریاض البحر، 156 ) 4 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 149:1 ) 5 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 144:1 ) 6 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 155:1 ) 7 ^ ( 1935ء، چند ہمعصر، 95 ) 8 ^ ( 1912ء، گل مغفرت، 101 ) 9 ^ ( 1836ء، ریاض البحر، 193 ) 10 ^ ( 1879ء، جان صاحب، دیوان، 225:2 ) 11 ^ ( 1914ء، شبلی، مقالات، 37:5 ) 12 ^ ( 1895ء، حیات صالحہ، 148 ) 13 ^ ( 1810ء، میر، کلیات، 210 ) 14 ^ ( 1902ء، طلسم نوخیز جمشیدی، 98:3 ) 15 ^ ( 1851ء، مومن، کلیات، 83 ) 16 ^ ( مؤنث ) 17 ^ ( 1914ء، نمدر دہلی کے افسانے، 122:1 ) 18 ^ ( 1831ء، دیوان ناسخ، 43:2 ) 19 ^ ( 1962ء، گنجینہ گوہر، 136 ) 20 ^ ( 1917ء، طوفان حیات، 15 ) 21 ^ ( 1854ء، دیوان صبا، غنچہ آرزو، 63 ) 22 ^ ( 1860ء، کیف، آئینہ ناظرین، 208 ) 23 ^ ( 1939ء، افسانہ پدمنی، 147 ) 24 ^ ( 1932ء، نئی روشنی، 27 ) 25 ^ ( 1873ء، طلسم الفت، قلق لکھنوی (فرہنگ آصفیہ، 201:1) ) 26 ^ ( 1883ء، دربار اکبری، 30 ) 27 ^ ( 1906ء، پریکٹیکل انجینءرز ہینڈ بک، 134 ) 28 ^ ( 1867ء، عرش، دیوان، 64 ) 29 ^ ( 1854ء، دیوان صبا، غنچہ آرزو، 139 ) 30 ^ ( 1925ء، اودھ پنچ، لکھنءو، 10، 10:8 ) 31 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 158:1 ) 32 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 129:1 ) 33 ^ ( 1879ء، مسدس حالی، 105 ) 34 ^ ( 1894ء، کامنی، سرشار، 7 ) 35 ^ ( 1906ء، پریکٹیکل انجینئرز، 119:2 ) 36 ^ ( 1905ء، دیوان انجم، 26 ) 37 ^ ( 1956ء، بیگمات اودھ، 14 ) 38 ^ ( 1939ء، شمع، 559 ) 39 ^ ( 1801ء، داستان امیر حمزہ، 15 ) 40 ^ ( 1932ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، 95 ) 41 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 155:1 ) 42 ^ ( 1900ء، امیر، انتخاب، 347 ) 43 ^ ( 1932ء، اخوان الشیاطین، 234 ) 44 ^ ( 1832ء، دیوان رند، 72:1 ) 45 ^ ( 1924ء، اختری بیگم، 82 ) 46 ^ ( 1901ء، الف لیلہ، سرشار، 14 ) 47 ^ ( 1902ء، مکاتیب محسن الملک، 54 ) 48 ^ ( 1828ء، مرآۃ العروس، 125 ) 49 ^ ( 1818ء، انشا، سلک گوہر، 7 ) 50 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 155:1 ) 51 ^ ( 1893ء، امیراللغات، 155:1 ) 52 ^ ( 1912ء، سی پارہ دل، 67 ) 53 ^ ( 1933ء، غزل، محمد مہدی، ادب، لکھنءو، 4:13 ) 54 ^ ( 1942ء، سنگ و خشت، 205 ) 55 ^ ( 1922ء، گوشہ عافیت، 64:1 ) 56 ^ ( 1915ء، گرداب حیات، 41 ) 57 ^ ( 1901ء، راقم، عقدہ ثریا، 74 ) 58 ^ ( 1780ء، سودا، ک، 183:1 ) 59 ^ ( 1912ء، شمیم، مرثیہ، 14 ) 60 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 152:1 ) 61 ^ ( 1934ء، تجلائے شہاب ثاقب، 146 ) 62 ^ ( 1810ء، میر، کلیات، 113 ) 63 ^ ( 1903ء، نظم نگاریں، 87 ) 64 ^ ( 1932ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، 142 ) 65 ^ ( 1895ء، فرہنگ آصفیہ، 197:1 ) 66 ^ ( 1924ء، تذکرۃ الاولیا، 376 ) 67 ^ ( 1872ء، عاشق، فیض نشان، 85 ) 68 ^ ( 1843ء، دیوان رند، 297:2 ) 69 ^ ( 1818ء، انشاء، کلیات، 78 ) 70 ^ ( 1861ء، کلیات، اختر 208 ) 71 ^ ( 1928ء، تنظیم الحیات، 106 ) 72 ^ ( 1883ء، دربار اکبری، 209 ) 73 ^ ( 1818ء، انشا، کلیات، 32 ) 74 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 149:1 ) 75 ^ ( 1818ء، انشا، کلیات، 60 ) 76 ^ ( 1935ء، خانم، 93 ) 77 ^ ( 1845ء، کلیات، ظفر 94:1 ) 78 ^ ( 1934ء، صنعت و حرفت ) 79 ^ ( 1922ء، شان فاروق، قمر بدایونی، 8 ) 80 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 15:1 ) 81 ^ ( 1894ء، مرثیہ شمیم، 14 ) 82 ^ ( 1831ء، دیوان ناسخ، 77:2 ) 83 ^ ( 1897ء، دیوان غافل، 102 ) 84 ^ ( 1818ء، انشا، کلیات، 84 ) 85 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 123:1 ) 86 ^ ( 1846ء، آتش، کلیات، 156 ) 87 ^ ( 1876ء، بیاض سحر (راجا محمود آباد)، 8 ) 88 ^ ( 1932ء، افسر الملک، تفنگ با فرہنگ، 29 ) 89 ^ ( 1914ء، سیرۃ النبی، 246:2 ) 90 ^ ( 1883ء، دربار اکبری، 207 ) 91 ^ ( 1932ء، اودھ پنچ، لکھنءو، 17، 10:9 ) 92 ^ ( 1952ء، جوش (سلطان حیدر)، ہوائی، 77 ) 93 ^ ( 1963ء، ساڑھے تین یار، 69 ) 94 ^ ( 1907ء، شعرالعجم، 11:2 ) 95 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 145:1 ) 96 ^ ( 1943ء، مضامین عبدالماجد دریا بادی، 252 ) 97 ^ ( 1891ء، امیراللغات، د : 146 ) 98 ^ ( فقیروں کی مشہور صدا ) 99 ^ ( 1892ء، دیوان حالی، 91 ) 100 ^ ( 1818ء، انشا، کلام انشا، 5 ) 101 ^ ( 1895ء، حیات صالحہ، 148 ) 102 ^ ( 1931ء، مکتوبات عبدالحق، 85 ) 103 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 47:1 ) 104 ^ ( 1836ء، ریاض البحر، 60 ) 105 ^ ( 1810ء، میر، کلیات، 614 ) 106 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 159:1 ) 106 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 159:1 ) 107 ^ ( 1831ء، دیوان ناسخ، 80:2 ) 108 ^ ( 1922ء، گوشہ عافیت، 60:1 ) 109 ^ ( 1836ء، ریاض البحر، 115 ) 110 ^ ( 1915ء، بہار عیش، سرفراز حسین، 2 ) 111 ^ ( 1929ء، مطلع انوار، 62 ) 112 ^ ( 1810ء، میر، کلیات، 406 ) 113 ^ ( 1895ء، فرہنگ آصفیہ، 201:1 ) 114 ^ ( 1851ء، مومن، کلیات، 127 ) 115 ^ ( 1840ء، نصیر دہلوی، چمنستان سخن، 107 ) 116 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 151:1 ) 117 ^ ( 1795ء، قائم، د، 70 ) 118 ^ ( 1919ء، آپ بیتی، نظامی، 20 ) 119 ^ ( 1936ء، پریم چند، پریم چالیسی، 115:2 ) 120 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 147:1 ) 121 ^ ( 1851ء، مومن، کلیات، 113 ) 123 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 157:1 ) 124 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 147:1 ) 125 ^ ( 1902ء، طلسم نوخیز جمشیدی، 98:3 ) 126 ^ ( 1910ء، قاسم اور زہرہ، 82 ) 127 ^ ( 1750ء، یک رنگ، مصطفٰی خان (نکات الشعرا، 21) ) 128 ^ ( 1905ء، داغ (نوراللغات، 123:1) ) 129 ^ ( 1826ء، معروف، دیوان، 15 ) 130 ^ ( 1911ء، تسلیم، دفتر خیال، 110 ) 131 ^ ( 1931ء، خمسہ متحیرہ، نسیم امروہوی، 17 ) 132 ^ ( 1845ء، نغمہ عندلیب، 16 ) 133 ^ ( 1870ء، دیوان اسیر، 28:3 ) 134 ^ ( 1582ء، کلمتہ الحقائق، 21 ) 135 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 149:1 ) 136 ^ ( 1895ء، حیات صالحہ، 148 ) 137 ^ ( 1931ء، مرثیہ بزم اکبر آبادی، 13 ) 138 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 123:1 ) 139 ^ ( 1895ء، فرہنگ آصفیہ، 196:1 ) 140 ^ ( 1854ء، دیوان صبا، غنچہ آرزو، 12 ) 141 ^ ( 1917ء، مسیح اور مسیحیت، 162 ) 142 ^ ( 1965ء، تاریخ پاک و ہند، 11 ) 143 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 145:1 ) 144 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 157:1 ) 145 ^ ( 1925ء، اودھ پنچ، لکھنءو، 10، 3:32 )