آیت
آیَت {آ + یَت} (عربی)
ا ی ی آیَت عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مشتق ہے۔ اردو زبان میں اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1609ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مؤنث - واحد) جمع: آیَتیں {آ + یَتیں (یائے مجہول)} جمع استثنائی: آیات {آ + یا + ت} جمع غیر ندائی: آیتوں {آ + یَتوں (واؤ مجہول)}
متغیّرات
[ترمیم]آیَہ {آ + یَہ}
معانی
[ترمیم]نشانی، دلیل، برہان۔
؎ پھر آیت اقتدار یزداں گردوں پہ ہے آفتاب گرداں [1]
2. کسی الہامی یا آسمانی کتاب کا ایک جملہ، قرآن شریف یا کسی اور الہامی آسمانی کتاب کا پورا ایک جملہ جس کے بعد گول نشان بنا دیا جاتا ہے۔
؎ کسی سورت میں بھی باقی نہیں جائے تاویل کسی آیت میں بھی ممکن نہیں ایہام یہاں [2]
3. قرآن شریف میں آیت کے خاتمہ پر بنا ہوا دائرہ جس کے ساتھ ٹھہرنے یا نہ ٹھہرنے کی علامت بھی درج ہوتی ہے، نیز انجیل و توریت کے جملے کے آخر میں وقفے کی علامت۔
؎ خال رخ روشن کی ہے پیہم یہ اشارت والفجر کے بعد آئی ہے قرآن میں آیت [3]
انگریزی ترجمہ
[ترمیم]a sign, a mark, a verse or paragraph of quran contained between sign which serve as stops
مترادفات
[ترمیم]عَلامَت نِشانی
مرکبات
[ترمیم]آیاتِ مُتَشابِہات، آیَتُ الْکُرْسی، آیاتِ بَیِّنات، آیَتُ اللہ، آیَت حَدِیث، آیَتِ سِجْدَہ، آیَتِ مُطْلَق، آیَتِ سِجْدَہ، آیَتِ کَرِیْمَہ
حوالہ جات
[ترمیم]1 ^ ( 1927ء، تنظیم الحیات، 23 ) 2 ^ ( 1933ء، سیف و سبو، 221 ) 3 ^ ( 1929ء، مرثیہ فہیم (باقر علی خان)، 11 )