آسا

ویکی لغت سے

آسا {آ + سا} (سنسکرت)

سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم آس کے ساتھ ا بطور لاحقۂ صفت لگانے سے آسا بنا۔اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ 1518ء کو "کبیر مشہور" میں مستعمل ملتا ہے۔

متغیّرات

آشا {آ + شا}

اسم نکرہ (مؤنث - واحد)

معانی[ترمیم]

1. امید، آرزو، خواہش، بھروسا۔

"پانچ بیگھے رہی ہے لیکن بیس من کی بھی آسا نہیں ہے۔" [1]

2. انتظار۔

؎ شربت وصل کا ہے دل پیاسا

آشتابی کہ تیری ہے آسا [2]

3. ڈھارس۔

؎ جو یوسف قید خانے میں رہا جا

ہوئی سب قیدیوں کے دل کو آسا [3]

4. { موسیقی } ایک راگنی کا نام جو صبح کے وقت گائی جاتی ہے۔

"ان راگوں میں دیس، جوگ، آسا اور بہروں وغیرہ راگ میرے لیے بہت خوشی کا باعث تھے۔" [4]

5. آسرا، سہارا، جس سے امید لگائی جائے۔

؎ روایت ہے کہ بو طالب ہو پیاسا

کہا سرور کوں اے دو جگ کے آسا [5]

مترادفات[ترمیم]

رفجائی اُمِیدْوار

رومن[ترمیم]

Aasa

تراجم[ترمیم]

انگریزی : Hope; confidence; resembling

مزید دیکھیے[ترمیم]

آسا2

حوالہ جات[ترمیم]

    1   ^ ( 1922ء، گوشۂ عافیت، 9:1 )
    2   ^ ( 1805ء، کلیات صاحب، 182 )
    3   ^ ( 1797ء، عشق نامہ، 149 )
    4   ^ ( 1857ء، ناقابل فراموش، 585 )
    5   ^ ( 1791ء، ہشت بہشت، 110 )