آسیب
آسیب {آ + سیب (یائے مجہول)} (فارسی)
یہ اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور اپنی اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو زبان میں مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1649ء میں "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم مجرد (مذکر - واحد)
جمع غیر ندائی: آسیبوں {آ + سے + بوں (واؤ مجہول)}
معانی
[ترمیم]صدمہ، تکلیف، مصیبت۔
؎ آئینے میں لیتے ہو جو زلفوں کی بلائیں
آسیب نہ پہنچے کہیں ہاتھوں کو تمہارے [1]
2. جن، بھوت، چڑیل، پری، دیو، ارواح خبیثہ۔
؎ الٰہی خیر کہ خانم کو شوق سایہ ہے
بلا تو یوں بھی وہ تھیں ہو نہ جائیں اب آسیب [2]
جن بھوت پری یا ارواح خبیثہ کا اثر یا سایہ، چشم زخم۔
"جب بچوں کے چیچک نکلتی ہے تو چیچک کو آسیب سمجھتے ہیں۔" [3]
3. ضرر، گزند، زد، مار۔
؎ جن سے آسیب کا تھا کھٹکا
ان دیووں نے خوب سر کو پٹکا [4]
4. آزار، بیماری، جنون، دیوانگی۔
؎ ہے دافع آسیب ہر اک سیب جلیل
انگور کی ہیں تاک میں سب متوالے [5]
انگریزی ترجمہ
[ترمیم]Misfortune, trouble, calamity; harm, injury, damage, hurt; apprehension, fear
مترادفات
[ترمیم]صَدْمَہ بَلا عَداوَت دُکھ دَہْشَت سایَہ بھُوت چھَلاوا
مرکبات
[ترمیم]آسیب زَدَہ، آسیبِ جاں، آسیبِ قَدَم
رومن
[ترمیم]Aaseb
حوالہ جات
[ترمیم]1 ^ ( 1905ء، یادگار داغ، 172 ) 2 ^ ( 1942ء، سنگ و خشت، 68 ) 3 ^ ( 1916ء، زنانہ میلاد، 165 ) 4 ^ ( 1921ء، اکبر، کلیات، 283:1 ) 5 ^ ( 1928ء، سرتاج سخن، 30 )