آشنا
آشْنا {آش + نا} (فارسی)
یہ اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور اپنی اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو زبان میں مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1609ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی (مذکر، مؤنث - واحد)
جمع: آشْنائیں {آش + نا + ایں (ی مجہول)}
جمع غیر ندائی: آشْناؤں {آش + نا + اوں (و مجہول)}
معانی
[ترمیم]1.دوست، رفیق، ساتھی۔
؎ روز تم کن صحبتوں میں اپنا بہلاتے ہو دل
یہ تمھارے مہرباں ہیں یہ تمھارے آشنا [1]
2. وہ شخص جو روشناس ہو، جانا پہچانا، جس سے شناسائی ہو۔
؎ راہ سفر میں کوئی مرا آشنا نہیں
حر کے سوا کسی کو بھی پہچانتا نہیں [2]
3. اگاہ، باخبر، واقف۔
"عرب تہذیب و تمدن سے آشنا تھے۔" [3]
4. مانوس۔
"اگر کوئی دفعتۃ آپ کو دیکھتا تو مرعوب ہو جاتا لیکن جیسے جیسے آشنا ہوتا جاتا آپ سے محبت کرنے لگتا۔" [4]
5. خواہاں، طالب۔
؎ مفلس سے یہ کب ملاتی ہے آنکھ
دخت رز آشنا ہے زر کی [5]
6. وہ مرد، عورت جن کا باہم ناجائز تعلق ہو۔
"میرے ہی پلنگ پر لیٹے لیٹے آشنا نگوڑی کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔" [6]
7. عزیز قریب، یگانہ، اپنا، بیگانہ کی ضد۔
؎ سیر کی جا ہے کوچہ ہستی
غیر بھی آشنا نکلتا ہے [7]
8. مائل (کسی چیز کو) چھوتا ہوا، مَس۔
"دونوں گھٹنے آشنا بزمین ہوئے"۔ [8]
9. پیراک، پیرنے والا، شناور۔
؎ یہ تیغ تیز موج بھی سیل فنا بھی ہے
دریائے خوں میں غرق بھی ہے آشنا بھی ہے [9]
مترادفات
[ترمیم]مُونِس واقِف یار ہَمْدَم تَیراک شَناسا اَٹْکا دَخِیل دوسْت یار رُوشَناس ظَہِیر
متضادات
[ترمیم]اَجْنَبی ناواقِف
مرکبات
[ترمیم]آشْنا پَرَسْت، آشْنا پَرْوَر، آشْنا دُشْمَن، آشْنا زَدَہ، آشْنا صُورَت، آشْناوَر
رومن
[ترمیم]Aashna
تراجم
[ترمیم]انگریزی : Acquaintance; comrade; friend; lover; paramour
حوالہ جات
[ترمیم]1 ^ ( 1910ء، جذبات نادر، 25 ) 2 ^ ( 1912ء، شمیم، مراثی (قلمی نسخہ)، 16 ) 3 ^ ( 1914ء، سیرۃ النبی، 205:2 ) 4 ^ ( 1914ء، سیرۃ النبی، 189:2 ) 5 ^ ( 1911ء، تسلیم، دفترخیال، 155 ) 6 ^ ( 1916ء، اتالیق بی بی، 10 ) 7 ^ ( 1845ء، کلیات ظفر، 275:1 ) 8 ^ ( 1908ء، آفتاب شجاعت، 5/1 : 543 ) 9 ^ ( 1963ء، مرثیہ فیض بھرتپوری، 9 )