آلا
آلا {آ + لا} (ہندی)
آل آلا
ہندی زبان کے اصل لفظ آل کے ساتھ ہندی قاعدہ کے مطابق ا بطور لاحقہ صفت لگانے سے آلا بنا۔ سب سے پہلے اردو میں 1795ء قائم کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی (مذکر - واحد)
واحد غیر ندائی: آلے {آ + لے}
جمع: آلے {آ + لے}
جمع غیر ندائی: آلوں {آ + لوں (واؤ مجہول)}
معانی[ترمیم]
ایسا زخم جو مندمل ہو کر پختہ نہ ہوا ہو، ہرا، کچا (زخم)۔
؎ رستے ہیں اب کے سال کہ بہتے ہیں دیکھیے
پھر فصل گل میں زخم دِل آلے ہوئے تو ہیں [1]
2. گیلا، نم۔
مختلف پودوں کے آلے اور غیر آلے مادوں کے تناسب کی ایک فہرست بھی لگائی گئی ہے۔" [2]
3. ٹھگ۔ (نوراللغات، 126:1)
مترادفات[ترمیم]
نَمْناک ہَرا زَخْم گِیْلا زَخْم
مرکبات[ترمیم]
آلا اَودَل
رومن[ترمیم]
aala
حوالہ جات[ترمیم]
1 ^ ( 1941ء، فانی، کلیات، 147 ) 2 ^ ( 1891ء، کسانی کی پہلی کتاب، 2:1 )