آواز
آواز {آ + واز} (فارسی)
اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو میں ماخوذ ہے۔ سب سے پہلے 1665ء میں "پھول بن" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مؤنث - واحد)
جمع: آوازیں {آ + وا + زیں (یائے مجہول)}
جمع ندائی: آوازو {آ + وا + زو (واؤ مجہول)}
جمع غیر ندائی: آوازوں {آ + وا + زوں (واؤ مجہول)}
معانی
[ترمیم]{ اصلا } کان کے ذریعے ہوا کی لہر یا حرکت کا احساس، جو سنائی دے، صدا، ندا، صوت (جیسے : ہانک پکار، گانے کی دھن، لے، تان، باج، جھنکار، ٹھائیں ٹھائیں، چیخ، کراہ، گونج، بھنبناہٹ، آہٹ، دھماکہ وغیرہ)۔
؎ تالاب میں بھی ہے بج رہا ساز
لہروں اور کشتیوں کی آواز [1]
2. { مجازا } سودے والے یا فقیر کی آواز۔
"این اے سی کی اجازت کے بغیر پھل اور ترکاری والے دفتر سے متصل چبوترے پر بیٹھتے ہیں اور دن بھر ان کی آوازیں کام میں خلل انداز ہوتی ہیں۔" [2]
3. بلاوا
؎ استغاثہ جو بلند آپ نے مقتل میں کیا
شہ کی آواز پہ لبیک کا اک شور اٹھا [3]
4. شہرت، آوازہ۔
"حسن بانو کی سخاوت اور خوبصورت ہونے کا آواز سنتے ہی عاشق ہو گیا۔" [4]
5. اعلان، مطالبہ، احتجاج۔
"مسلمان عورت ..... اپنے حقوق کی واپسی کے مطالبے میں تنہا نہیں ہے اس کی آواز پر ہر ..... مسلمان لبیک کہے گا۔" [5]
6. کلمات، کلام، بات یا باتیں، گفتگو۔
"ہاتف غیب نے یہ آواز فوج اسلام کے کان میں پہونچائی۔" [6]
7. زبان، بولی۔
؎ وہب کی لاش پہ نوحہ جو پڑھے جاتی تھی
اس کی آواز سمجھ ہی میں نہیں آتی تھی [7]
8. (روح، ضمیر یا دل وغیرہ کا) تقاضا، مخلصانہ تجویز وغیرہ (جو ذاتی خواہش سے ہو اور جو عوارض و حالات سے متاثر نہ ہو)۔
"دل کی آواز سادہ ہوتی ہے، کلمہ حق ہمیشہ سادہ ہوتا ہے۔" [8]
مترادفات
[ترمیم]صَدا لَلْکار فَرْیاد نَغْمَہ جھَنْکار نِدا{1} پُکار سُر لَے صَوت آہَٹ باج{2} ساؤُنْڈ صَلا ٹِک بات بول اَذان لَحْن شَبْد لَہْجَہ صَدا
مرکبات
[ترمیم]آوازِ بازْگَشْت، آوازِ پا، آواز پَر، آوازِ جَرَس، آوازِ خَنْدَہ، آواز دِہَنْدَہ، آوازِ صُور، آواز کا پَلاّ، آواز کُش، آواز گِیر، آواز نِگار، آوازِ غَیب
روزمرہ جات
[ترمیم]آواز لگنا
آواز لگانا کا فعل لازم ہے
؎ کیا ماں کے پاس بیٹھے ہو مسرور و مطمئن
آواز لگ رہی ہے وہ ہل من مبارز [9]
{ علم الکلام۔ } آواز کا خوب سر پر پہونچنا۔
اس کی آواز خوب لگتی ہے یعنی سر پر خوب پہنچتی ہے۔" [10]
آواز نکالنا
بولنا، کم سے کم کچھ کہنا؛ رونے یا گانے کا آغاز کرنا۔
ماشاء اللہ کیا گلا ہے آواز نکالتے ہی محفل کا اور رنگ ہو گیا۔" [11]
آواز نکلنا
آواز نکالنا کا فعل لازم ہے۔
؎ آواز نکلتی ہے یہ قطرہ خوں سے
یا احمد مختار مدد کے لیے آءو [12]
آواز لگانا
بلند آواز سے اعلان کرنا، پکارتے ہوئے چلنا۔
محل کے نیچے آ کر ٹھہرا اور آواز لگائی کہ میں منتری حساب داں ہوں میں طالب و مطلوب کو باہم ملاتا ہوں۔" [13]
(کسی جانور کا) اونچے سروں میں بولنا، بانگ دینا۔
طائروں نے اس سوز و گداز سے آوازیں لگائیں گویا صور اسرافیل پھکا۔" [14]
{ علم الکلام۔ } گانا، الاپنا، تان لگانا۔
واہ میاں کیا آواز لگائی ہے کہ تان سین کی روح بے چین ہو گئی۔" [15]
پکارنا، بلانا، ٹیرنا، جیسے : بھئی میرصاحب کو آواز لگاءو کہ جلدی گاڑی نکالیں اور چلیں۔
سودے والے کا صدا دینا اور بیچنا۔
کوئی آموں کی آواز لگا رہا ہے توکوئی جامنیں پچ رہا ہے۔" [16]
فقیر کا صدا دینا۔
فقیر کب سے دروازے پر آواز لگا رہا ہے کچھ دے آءو۔" [17]
آواز صاف ہونا
آواز کا نقص دور ہونا، گلا صاف ہو جانا، آواز کا بھدا پن یا بھاری پن جاتا رہنا۔ (امیراللغات، 295:1)
آواز کانوں میں بھر جانا
وہ کان یا آواز جو زیادہ دلکش معلوم ہو یا وہ تقریر جو بہت پسند ہو اس کے خاتمے کے بعد بھی اس کا تصور بندھے رہنا اور ایسا محسوس ہونا جیسے وہی بولی کان سن رہے ہیں۔
؎ لحن داءود کا رتبہ نہیں جس کے آگے
ہے بھری کانوں میں وہ ایک بشر کی آواز [18]
آواز گرمانا
گانا شروع کرنے سے پہلے تان لگا کر، یا کسی اور طریقے سے آواز کو گانے کے لیے تیار کرنا۔
آدھی رات تک تو یونہی گلے بازی کر کے آواز گرماتا رہا۔" [19]
آواز لڑنا
آواز میں آواز مخلوط ہونا، ہم آہنگ ہو جانا۔
؎ آوازیں لڑ رہی ہیں چمن میں ہزار کی
اک حسن رنگ گل پہ یہ سب قال و قیل ہے [20]
آواز پھولنا
آواز کا پھیلنا اور بھاری ہو جانا، صاف نہ نکلنا۔
؎ کان رکھ کر جو سنو تم تو یہ پھولے آواز
میری فریاد کرن پھول بنے کانوں میں [21]
آواز دبنا
آواز کا دھیما ہونا، پورے طور پر نہ نکلنا، آواز کا نیچا یا مدھم ہونا۔
؎ کیا رقیب روسیہ ہے چیز ناسخ کے
حضور دب گئی آواز خرکی شیر کی آواز سے [22]
آواز دینا
پکارنا، بلانا، پکار کر بلانا۔
اس مچھلی والے کی طرح نہ جاءو جس نے مغموم ہو کر خدا کو آواز دی تھی۔" [23]
بولنا، سنسنانا، بجنا۔
؎ سیکڑوں آہیں کروں پر ذکر کیا آواز کا
تیر جو آواز دے ہے نقص تیرانداز کا [24]
(سودے والے یا فقیر کا) صدا لگانا۔
برف والا کہاں چلا گیا ابھی تو یہیں آواز دیتا تھا۔" [25]
آواز سے آواز ملنا
دو آوازوں کا باہم مشابہ ہونا۔
؎ رخسار بھی گیسو بھی زنخداں بھی ذقن بھی
آواز سے آواز بھی ملتی ہے دہن بھی [26]
آواز پر لبیک کہنا
تعاون کے لیے تیار ہونا، تائید میں اٹھ کھڑا ہونا، ساتھ دینا۔
مسلمان عورت ..... اپنے حقوق کی واپسی کے مطالبے میں تنہا نہیں ہے اس کی آواز پر ہر ..... مسلمان لبیک کہے گا۔" [27]
آواز پر(-- پہ) لگانا۔
جانور وغیرہ کو اس طرح سدھانا کہ وہ آواز سنتے ہی اس کے پاس چلا آئے۔ (ماخوذ : امیراللغات، 293:1؛ جامع اللغات، 78:1)
آواز پر لگنا
سدھے ہوئے جانور وغیرہ کا سدھانے والے کی آواز کو پہچاننا، بولی سمجھنا، سیٹی سمجھنا، سنتے ہی جوابی آواز دینا یا اشارہ سمجھ کے کام کرنے لگنا۔
؎ جب میں نے آہ کی ہے قیامت اٹھائی ہے
آواز پر ہے شورش محشر لگی ہوئی [28]
آواز پڑنا
پکار کر آواز دی جانا؛ خصوصاً عدالت میں پیشی کے لیے فریق مقدمہ کو چپراسی کا بلند آواز سے نام لے کر پکارنا۔
ادھر آواز پڑی، ادھر وہ نیچے اترا۔" [29]
آواز پیدا ہونا۔
آواز اٹھنا، آواز نکلنا (کسی چیز یا جگہ سے)۔ ؎ سر حسین سے آواز یہ ہوئی پیدا
میں ہوں علی کا پسر جان فاطمہ زہرا [30]
آواز پھٹنا
(آواز کا) بھاری ہو جانا یا آواز جھرجھری ہو جانا۔ (ماخوذ : نوراللغات، 207:1؛ فرہنگ آصفیہ، 306:1)
آواز آنا
آواز سنائی دینا، آواز کا کان میں پڑنا۔
؎ آتی ہے تیری ہی آواز جدھر جاتا ہوں
تو نے کی بات تو ہر ذرے میں گویائی ہے [31]
آواز بجھنا
آواز مدھم ہو جانا، آواز دھیمی پڑ جانا۔
؎ آواز بجھ رہی جو دو گانا کی آج ہے انشا سے کوئی کہہ دے اب اس کا گلا کرے [32]
آواز بند کرنا
خاموش کر دینا، آواز دبا دینا، نہ بولنے پر مجبور کر دیا، گویائی کو سلب کر دینا۔
؎ تھا یہ سوکھی ہوئی اصغر کی زباں کا اعجاز بند
کر دی تھی خموشی نے دفوں کی آواز [33]
{ تصوف } رشوت دے کر یا کسی اور دباءو سے کسی شخص کو اعتراض نہ کرنے پر راضی یا مجبور کر دینا۔
ان کے منہ میں نوٹوں کے پلندے ٹھونس ٹھونس کر ان کی آواز بند کر دیتا ہوں۔" [34]
آواز بند ہونا
آواز بند کرنا کا فعل لازم۔
؎ قرآن پڑھتے پڑھتے جہاں سے گزر گئے
آواز بند ہو گئی شبیر مر گئے [35]
آواز اٹھانا
{ علم الکلام۔ } گانے میں آواز کا بلند کرنا، اونچے سروں میں گانا۔
؎ مہر نالوں سے مرے اس کے ترانے نہ بڑھے
لاکھ گلزار میں بلبل نے اٹھائی آواز [36]
کسی شخص یا بات کے خلاف بولنا، احتجاج کرنا، پکار مچانا۔
گاءوں کے آدمی تکلیف پاتے مگر ان کے مرتبے کے سبب مخالفت میں آواز نہ اٹھاتے۔" [37]
آواز اٹھنا
آواز اٹھانا کا فعل لازم ہے۔
پیانو کی اور پیانو کے ساتھ گانے والوں کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔" [38]
آواز سنائی دینا، صدا بلند ہونا۔
؎ اٹھی یکبارگی آواز واں سے
نہایت آشنائی کی زباں سے [39]
آواز اکھڑنا
{ علم الکلام۔ } تان لگانے یا اپچ لینے میں زور کھا کے آواز کا پھٹ جانا، آواز بے تال اور بے سری ہو جانا۔
آواز تو اچھی ہے مگر گاتے گاتے اکھڑی جاتی ہے۔" [40]
آواز بھاری ہونا
آواز بیٹھ جانا، آواز میں بھرّاہٹ یا ایک قسم کی گرانی پیدا ہونا، آواز بیٹھ جانا۔
کیا پھپی صاحب ہیں? نرگس نے کہا، ہاں میں ہوں، خرم تمہارا کیا حال ہے? خرم کی آواز بھاری ہو گئی۔" [41]
آواز بھَرّانا
آواز کا ناہموار ہونا، بھاری بھاری اور پھیلا پھیلا سا ہونا۔
؎ کان رکھ کر نہ سنی گل نے صدا اے بلبل
چیختے چیختے بھرّا گئی آواز تری [42]
آواز پتانا
آواز کا تھرتھرانا، آواز کانپنا۔
وہ کیا آئے گا ابھی بیماری سے اٹھا ہے ضعف سے آواز پتاتی ہے۔" [43]
آواز پر کان (دھرنا | رکھنا | لگائے رہنا | لگائے ہونا)
آواز سننے کا منتظر رہنا، آواز سننے کی طرف متوجہ رہنا۔ (امیراللغات، 293:1)
آواز پر کان لگے (رہنا | ہونا)
آواز پر کان لگائے رہنا کا فعل لازم ہے۔
؎ کان آواز قدم پر جو لگے رہتے ہیں
آنکھ دروازے کی جانب نگراں رہتی ہے [44]
رومن
[ترمیم]Aawaz
تراجم
[ترمیم]انگریزی : Sond; voice; cry ; shout; noise; tinkling; echo
حوالہ جات
[ترمیم]1 ^ ( 1910ء، جذبات نادر، 294 ) 2 ^ ( 1952ء، ہفت روزہ مراد خیرپور، 6 جنوری، 2 ) 3 ^ ( 1912ء، شمیم، مرثیہ، 13 ) 4 ^ ( 1801ء، آرائش محفل، حیدری، 16 ) 5 ^ ( 1936ء، راشدی الخیری، عالم نسواں، 24 ) 6 ^ ( 1723ء، کربل کتھا، 142 ) 7 ^ ( 1959ء، مراثی نسیم، 317:3 ) 8 ^ ( 1961ء، عبدالحق، خطبات، 84 ) 9 ^ ( 1923ء، مرثیہ، بزم اکبرآبادی، 9 ) 10 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 296:1 ) 11 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 210:1 ) 12 ^ ( 1973ء، مناجات بدر، 4:2 ) 13 ^ ( 1941ء، الف لیلہ و لیلہ، 657:7 ) 14 ^ ( 1901ء، قمر، طلسم ہوشربا، 657:7 ) 15 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 2:1 ) 16 ^ ( 1895ء، فرہنگ آصفیہ، 307:1 ) 17 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 109:1 ) 18 ^ ( 1879ء، جان صاحب (امیراللغات، 296:1) ) 19 ^ ( 1973ء، جہان دانش، 40 ) 20 ^ ( 1934ء، تجلائے شہاب ثاقب، 259 ) 21 ^ ( 1872ء، عاشق، فیص نشان، 121 ) 22 ^ ( 1831ء، دیوان ناسخ، 186:2 ) 23 ^ ( 1913ء، مضامین ابوالکلام آزاد، 82 ) 24 ^ ( 1816ء، دیوان ناسخ، 15:1 ) 25 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 207:1 ) 26 ^ ( 1941ء، مرثیہ شہید لکھنوی، 4 ) 27 ^ ( 1936ء، راشدی الخیری، عالم نسواں، 24 ) 28 ^ ( 1905ء، داغ (نوراللغات، 107:1) ) 29 ^ ( 1970ء، تاثرات، ملا واحدی، 60 ) 30 ^ ( 1963ء، مرثیہ فیض بھرت پوری، 12 ) 31 ^ ( 1929ء، نقوش مانی، 148 ) 32 ^ ( 1818ء، انشا، کلیات، 207 ) 33 ^ ( 1912ء، شمیم، مرثیہ، 17 ) 34 ^ ( 1935ء، دودھ کی قیمت، 154 ) 35 ^ ( 1929ء، مرثیہ فہیم (باقر علی خاں)، 13 ) 36 ^ ( 1936ء، شعاع مہر، 52 ) 37 ^ ( 1930ء، اردو گلستان، 137 ) 38 ^ ( 1940ء، سجاد حیدر، حکایہ لیلٰی و مجنوں، 32 ) 39 ^ ( 1828ء، مثنوی نل دمن، 27 ) 40 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 206:1 ) 41 ^ ( 1921ء، اولاد کی شادی، 105 ) 42 ^ ( 1905ء، یادگار داغ، 179 ) 43 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 207:1 ) 44 ^ ( 1836ء، ریاض البحر، 252 )