تخلیہ
عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے لحاظ سے بعینہ داخل ہوا اور سب سے پہلے 1845ء کو "حکایت سخن سنج" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم مجرد ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی: تَخْلِیے [تَخ + لِیے]
1. خالی کرنا، خالی کیا جانا: نکلنا، انخلا۔
"جس وقت تک .... کابل کا تخلیہ ہو رہا تھا وہاں سے خبروں کی کمی نہیں ہوئی۔" ( 1929ء، حقیقت، روزانہ، لکھنو (تاریخ نثر اردو، 449:1) )
2. تنہائی
غرض تخلیہ تین گھنٹے رہا رہا شورہ رزم اور نظم کا ( 1893ء، صدق البیان، 123 )
3. خلوت گزینی، تنہائی پسندی، تنہا رہنے کا عمل۔
"پھر طبیعت مبارک میں تخلیہ پسند کیا گیا۔" ( 1923ء، سیرۃ النبیۖ، 312:3 )
4. اختتام ملاقات، رخصت۔
چاہوں گا تخلیہ نہ زیادہ بٹھاؤں گا تشریف لائیے بھی تو حضرت کسی طرح ( 1921ء، اکبر، کلیات، 128:1 )
انگریزی
[ترمیم]evacuation; private place or room, privacy; manumission (of a slave); divorce (of a wife)