ٹوکرا
ٹوکْرا {ٹوک (واؤ مجہول) + را} (سنسکرت)
ستوک + ر + کہ، ٹوکْرا
سنسکرت کے اصل لفظ ستوک + ر + کہ سے ماخوذ اردو زبان میں ٹوکرا مستعمل ہے۔ اردو میں اصل معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ 1621ء میں "خالق باری" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مذکر - واحد)
واحد غیر ندائی: ٹوکْرے {ٹوک (واؤ مجہول) + رے}
جمع: ٹوکْرے {ٹوک (واؤ مجہول) + رے}
جمع غیر ندائی: ٹوکْروں {ٹوک (واؤ مجہول) + روں (واؤ مجہول)}
معانی
[ترمیم]1. بانس یا جھاؤ وغیرہ کا بنایا ہوا ظرف، جھابا، جھلی، جھلا، چھبڑا، ڈلا، سبد۔
"اس کے تنے سے ٹوکرے اور چلمن بنائی جاتی۔"، [1]
2. ایک قسم کی چھوٹی سی کشتی، ڈونگا، بجرا۔
"دریاؤں کے پار اترنے میں ٹوکرے کشتیوں سے زیادہ بے خطر ہوتے ہیں۔"، [2]
3. { کنایۃ } بوجھ جیسے ذلت کا ٹوکرا یا بطور طنز عزت یا علمیت وغیرہ کا ٹوکرا۔
؎ کیوں عبث پھرتا ہے ہم رندوں کے سر پر رات دن
ٹوکرا بدنامیوں کا آسماں ہو جائے گا، [3]
4. پچیسی کی ہار یا ہاری ہوئی بازی۔ (جامع اللغات؛ پلیٹس)
انگریزی ترجمہ
[ترمیم]a large basket (without a lid); a wicker ferry-boat covered and sewn over with leather; a coracle; a lost game
مترادفات
[ترمیم]چھابا، چھَبْڑا، ڈَلا