صیغہ
صِیغَہ {صِی + غَہ} (عربی)
ص ا غ، صِیغَہ
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے 1880ء کو "فسانۂ آزاد" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مذکر - واحد)
واحد غیر ندائی: صِیغے {صی + غے}
جمع: صِیغے {صی + غے}
جمع غیر ندائی: صِیغوں {صی + غوں (و مجہول)}
معانی
[ترمیم]1. سانچے میں ڈھلی ہوئی چیز۔
"صیغہ لغت میں ڈھلی ہوئی چیز کو کہتے ہیں۔"، [1]
2. سررشتہ، محکمہ۔
"خواتین ڈویژن .... میں افسر صیغہ کی مزید ایک اسامی .... پر رضامند ہو گیا ہے۔" [2]
شعبہ، شاخ نیز پیشہ یا ملازمت۔
"صیغۂ زراعت میں ایک ڈگری لے لی۔" [3]
سلسلہ، رشتہ، تعلق، نسبت۔
"اجروس سے صیغۂ اخوت ہے اجروس کو بھائی کہتے ہیں۔" [4]
{ قانون } دفعہ، دفتر (اردو قانونی ڈکشنری، 386)
3. { صرف } حروف اور حرکات و سکنات کی تعداد اور ترتیب کے لحاظ سے لفظ کی جو صورت ہو اس کا نام صیغہ ہے۔ تعریف، گردان، فعل کی صورت، مثلاً صیغہ واحد، صیغہ متکلم وغیرہ۔
"واحد غائب کا صیغہ بالعموم .... قاری سمجھ ہی نہیں سکتا۔"، [5]
4. وہ کلماتِ عربی جو نکاح یا متعہ کے ایجاب و قبول میں یا طلاق میں پڑھے جاتے ہیں (عموماً) اہل تشیع کا نکاح۔
"مولوی صاحب نے بسم اللہ کہہ کر صیغہ جاری کر دیا۔"، [6]
نفرء
مترادفات
[ترمیم]سانْچا، قالِب، طَور، اَنْداز، ڈھَنْگ، ڈِپارْٹمِنْٹ، مَحْکَمَہ،
مرکبات
[ترمیم]صِیغَۂ فَوجْداری