غرقاب
غَرْقاب {غَر + قاب}
عربی زبان سے مشت اسم غرق کو فارسی زبان سے ماخوذ اسم آب کے ساتھ ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم و صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے 1635ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم کیفیت (مذکر - واحد)
معانی
[ترمیم]1. گرداب، بھَْنور، ورطہ۔
؎ لگا پڑنے کو جب وہ عرش رتبہ
پڑا غرقاب میں جرت کے عتبہ، [1]
2. سیلاب، ڈباؤ پانی، گہرا پانی۔
"بھیجا اُن پر غرقاب اور ٹڈی اور چچڑی اور مینڈک اور لوہو، کئی نشانیاں جدی جدی، پھر تکبر کرتے رہے اور تھے وہ لوگ گہنگار۔"، [2]
صفت ذاتی
معانی
[ترمیم]1. ڈوبا ہوا، پانی میں ڈوبا ہوا۔
؎ فرعون کو غرقاب سمجھنے والو
فرعون کی اولاد ابھی باقی ہے، [3]
2. محو، مستغرق، کھویا ہوا، مدہوش۔
"سمر قندو بخارا کو جنکی دھن میں وہ نو عمر غرقاب ہے اس کے صرف خالِ رخسار کا صدقہ بنا کر اسکے سامنے پیش کرتے تھے۔"، [4]
3. گہرا عمیق (پایاب کی ضد)۔
؎ بحرِ الفت میں قدم سوچ کے رکھنا پروین
ہے کنارے ہی پہ غرقاب نہ پایاب نہیں، [5]
4. نشتہ میں چور، نشہ میں دھُت، نشہ میں بت بنا ہوا، جسے: چُلو میں اُلو ، لوٹے میں غرقاب۔ (فرہنگِ آصفیہ)
مترادفات
[ترمیم]غَرْق