عاشق

ویکی لغت سے

عاشِق {عا + شِق} (عربی)

ع ش ق، عاشِق

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں بطور صفت نیز اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے 1503ء "نوسرہار (اردو ادب)" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی (مذکر - واحد)

جنسِ مخالف: عاشِقَہ {عا + شِقَہ}

واحد ندائی: عاشِقو {عا + شِقو (و مجہول)}

جمع: عُشّاق {عُش + شاق}

جمع استثنائی: عاشِقاں {عا + شِقاں}

جمع غیر ندائی: عاشِقوں {عا + شِقوں (و مجہول)}

معانی[ترمیم]

1. عشق کرنے والا، فریفتہ، شیدا۔

"غم میں ڈوب کر موزوں طبیعت والے نامراد عاشق نے .... شاہکار تصنیف کیا۔"، [1]

2. بہت پسند کرنے والا، دل سے قدر کرنے والا، قدردان۔

؎ جب تک بہار رہتی ہے رہتا ہے مست تو

عاشق ہیں میر ہم تو تری عقل و ہوش کے، [2]

3. { تصوف } عشق حقیقی میں غرق، جس کو خودی کا خیال نہ ہو، عارفِ کامل۔

"جو شخص گم کردہ قلب نہ ہو عاشق نہ ہو گا اس لئے کہ جو شخص دل سے خبر رکھے گا یا دل دل رکھے وہ عاشق نہیں۔"، [3]

4. وہ پرزہ جو گھنڈی کی طرح حلقہ میں ڈالا جاتا ہے۔

(ماخوذ : نوراللغات)

5. طنزاً بے فکرا، بے پروا، غافل، مدہوش، دین و دنیا سے بے خبر۔

(مہذب اللغات)

مترادفات[ترمیم]

مُحِب، شَیدا، پَریمی، سَجَن، طالِب، فِدا، شیفْتَہ، خَبْطی، دِل جَلا، صاحِبِ ذَوق، سَودائی، دِل دادَہ، کُشْتَہ، شَیدا، دِلْدادَہ، سوخْتَہ جان، اَٹْکا، فَریفْتَہ، فِدائی، دِل بَسْتَہ، مُبْتَلا، لوٹ، بَلَم، جان دادَہ، پِریمی، لَٹُّو، شورِیَدہ، پَرْوانَہ،

مرکبات[ترمیم]

عاشِق زار، عاشِقِ صادِق، عاشِق مِزاج، عاشِقِ نامُراد، عاشِق و مَعْشُوق، عاشِق نَواز

روزمرہ جات[ترمیم]

عاشق ہونا 

فریفتہ ہونا، محبت میں مبتلا ہونا، عشق کرنا۔

؎ ہم تو اک نام کے عاشق ہیں جیا کرتے ہیں ہو خفا شوق سے گر نام کسی کا ہے یہی، [4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ( 1988ء، قومی زبان، کراچی، جولائی، 11 )
  2. ( 1810ء، میر (نوراللغات) )
  3. ( 1921ء، مصباح التعرف، 177 )
  4. ( 1981ء، حرفِ دل رس، 143 )

مزید دیکھیں[ترمیم]


فارسی[ترمیم]

اسم[ترمیم]

عاشق (جمع: عشاق)

  1. عاشق