مثنوی
مَثْنَوی {مَث + نَوی} (عربی)
ث ن ی، مَثْنَوی
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً 1697ء کو "دیوان ہاشمی" میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع: مَثْنَوِیاں {مَث + نَوِیاں}
جمع استثنائی: مَثْنَوِیات {مَث + نَوِیات}
جمع غیر ندائی: مَثْنَوِیوں {مَث + نَوِیوں (و مجہول)}
معانی
[ترمیم]1. وہ مسلسل ہم وزن اشعار کی نظم جس کی ہر بیت کا قافیہ جدا اور بیت کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں، کل مثنوی ایک ہی وزن میں ہوتی ہے اور اس کے اشعار کی تعداد مقرر نہیں، مثنوی بحر ہزج، رمل، سریع خفیف، متقارب، متدارک وغیرہ بحروں میں کہی جاتی ہے۔ "میر حسن کی مثنوی "سحرالبیانذ اردو کی سب سے اچھی اور مقبول ترین مثنوی تسلیم کی جاتی ہے۔"، [1]
2. مولانا روم کی مشہور و معروف مثنوی۔
"مولانا روم کی "مثنوی" بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھی جاتی ہے۔"، [2]
انگریزی ترجمہ
[ترمیم]poetry consisting of distiches corresponding in measure , each consisting of a pair of rhymes; heroic verse - a poem written in that verse
مرکبات
[ترمیم]مَثْنَویِ مَعْنَوی، مَثْنَوی نِگاری، مَثْنَوئِ مَعْنَوی، مَثْنَوی خواں، مَثْنَوی گوئی، مَثْنَوی نِگار
حوالہ جات
[ترمیم]مزید دیکھیں
[ترمیم]فارسی
[ترمیم]اسم
[ترمیم]مثنوی