ٹھکانا
ٹھِکانا {ٹھِکا + نا} (سنسکرت)
ستھان + کہ، ٹھِکانا
سنسکرت کے اصل لفظ ستھان + کہ سے ماخوذ اردو زبان میں ٹھکانا مستعمل ہے۔ اردو میں اصل معنی میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ 1801ء میں حیدری کی "آرائش محفل" میں مستعمل ملتا ہے۔
متغیّرات
ٹھِکانَہ {ٹھِکا + نَہ}
اسم نکرہ (مذکر - واحد)
واحد غیر ندائی: ٹھِکانے {ٹھِکا + نے}
جمع: ٹھِکانے {ٹھِکا + نے}
جمع غیر ندائی: ٹھِکانوں {ٹھِکا + نوں (واؤ مجہول)}
معانی
[ترمیم]1. گھر، منزل، مقام، (ٹھہرنے کی) جگہ۔
"دلی میں ٹھہرنے کا ٹھکانا مشکل ہے۔"، [1]
2. بھنگی چمار یا دوسرے ادنٰی پیشہ ورانہ خدمت گاروں کی لگی بندھی جگہ محلہ یا مکان۔
"چوڑی والیوں کے بھی ٹھکانے بندھے ہوئے تھے۔"، [2]
3. { مجازا } سہارا، بل بوتا، ذریعہ۔
؎ سہارا تھا ماتا کا وہ بھی نہیں اب
نہیں کوئی میرا ٹھکانا کہیں اب، [3]
4. { مجازا } دھنگ، سلیقہ، طور۔
"یہ عجب آدمی ہے نہ ٹھکانے سے بھاگتا ہے نہ ڈرانے سے ڈرتا ہے۔"، [4]
5. بجا، قرار۔
؎ نہ ہوش اپنا ٹھکانے سے نہ دل اپنا ٹھکانے سے
محبت میں کہیں اپنا ٹھکانہ ہو تو کیوں کر ہو، [5]
6. { مجازا } پتا، نشان، سراغ۔
؎ کھوئے گئے ہم ایسے ملتا نہیں ٹھکانا
جب سے ہوا ہے سودا اس بت کی جستجو کا، [6]
7. { عوام - مجازا } رشتہ، رشتہ داری، بیاہ (ہونا کے ساتھ) (تاکہ لڑکی کے رہنے کی جگہ یا مکان میسر ہو سکے)۔
"پہلے بہن نادری اور جعفری کا ٹھکانا ہو جائے۔"، [7]
8. اعتبار، بھروسا(کا کے ساتھ)
"زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔"، [8]
9. جائے قرار، مرکز۔
؎ تیرا نیاز مند جو اے نازنیں نہیں
دونوں جہاں میں اس کا ٹھکانا نہیں، [9]
10. حد، حد و حساب، انتہا۔
کچھ ٹھکانا ہے بدگمانی کا، [10]
11. موقع، جائے وقوع، نشان زدہ مقام، اڈا۔
"بم باروں نے آج دو مرتبہ .... ویٹ کانک کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔"، [11]
مترادفات
[ترمیم]مَقام، مَرْکَز، پَتَہ، سُراغ، مآب، جَگَہ، مَقام، پَتا،
مرکبات
[ترمیم]ٹھِکانے کا
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ ( 1902ء، زبان داغ، 61 )
- ↑ ( 1962ء، ساقی جولائی، 46 )
- ↑ ( 1901ء، مظہرالمعرفت، 1 )
- ↑ ( 1801ء، آرائش محفل، حیدری، 87 )
- ↑ ( 1849ء، کلیات ظفر، 94:2 )
- ↑ ( 1886ء، دیوان سخن، 79 )
- ↑ ( 1924ء، اختری بیگم، 339 )
- ↑ ( 1933ء، میرے بہترین افسانے، 56 )
- ↑ ( 1846ء، آتش، کلیات، 115:1 )
- ↑ ( 1950ء، دیوان حسرت موہانی، کلیات، 57 )
- ↑ ( 1966ء، جنگ کراچی، 30، 1:180 )