حافظ
حافِظ {حا + فِظ} (عربی)
ح ف ظ، حِفْظ، حافِظ
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے 1657ء میں "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی (مذکر - واحد)
جنسِ مخالف: حافِظَہ {حا + فِظَہ}
جمع استثنائی: حافِظِین {حا + فِظِین}
جمع ندائی: حافِظو {حا + فِظو (واؤ مجہول)}
جمع غیر ندائی: حافِظوں {حا + فِظوں (و مجہول)}
معانی
[ترمیم]1. نگہبان، محافظ، حفاظت کرنے والا، پاسبان، خبر گیر۔
؎ الحذر آئین پیغمبرۖ سے سو بار الحذر
حافظِ ناموس زن، صرد آزما صرد آفریں، [1]
2. خدا کے ننانوے ناموں میں سے ایک نام۔
؎ حفی و حافظ و حَنّان و ماغ و مَنّان
تری ہی قدرت و تقدیر سے نُشُورِ رِمَم، [2]
3. وہ شخص جسے قرآن زبانی یاد ہو (گا ہے بطور لقب نام کے ساتھ)کسی علم یا کتاب کو ازبر کرنے والا (اس علم یا کتاب کی نسبت کے ساتھ)۔
"حافظ سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جسے قرآن حکیم زبانی یاد ہو۔"، [3]
4. اندھا، اندھوں کا لقب۔
(فرہنگ آصفیہ)
5. اہل فارس قوال کو بھی کہتے ہیں۔
(گلزار معانی)
6. ایران کے مشہور صوفی شاعر شمس الدین محمد شیرازی کا تخلص۔
"اس کے احاطے میں وہ نہر رکنا باد گزرتی ہے جس کا ذکر کلام حافظ میں ملے گا۔"، [4]
مرکبات
[ترمیم]حافِظِ بَرْحَق، حافِظ جی، حافِظِ حَدِیث، حافِظِ حَقِیقی، حافِظِ قُرْآن
حوالہ جات
[ترمیم]مزید دیکھیں
[ترمیم]- قوت حافظہ
- محافظ
- محافظ خانہ
- محافظت
- حافظ برحق
- حافظ جی
- حافظ حدیث
- حافظ حقیقی
- حافظہ کا کچا
- حافظۂ عظیمہ
- حافظی
فارسی
[ترمیم]صفت
[ترمیم]حافظ