اندھیر نگری ، چوپٹ راجا ، ٹکے سیر بھاجی ، ٹکے سیر کھاجا
ابجد | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
ہندی
[ترمیم]ضرب المثل
[ترمیم]اندھیر نگری، چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی، ٹکے سیر کھاجا
معنی
[ترمیم]یعنی ایسی جگہ جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو یا ایسی حکومت جہاں ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہو، حاکم وقت نا اہل اور کارندے نالائق ہوں۔ یہ فقرہ ایک لوک کہانی سے لیا گیا ہے۔ [1]
پس منظر
[ترمیم]ایک گرو اپنے چیلے کے ساتھ سفر کو نکلے تو ان کا گزر ایک ایسی بستی سے ہوا جس کا نام اندھیر نگری تھا اور جہاں کا حاکم چوپٹ راجا کہلاتا تھا۔ اندھیر نگری کے بازاروں میں چھوٹی بڑی ہر چیز بھاجی (ترکاری) سے لے کر کھاجا (اعلیٰ قسم کی ایک مٹھائی) تک ایک ٹکے (نہایت چھوٹا سکّہ) میں ایک سیر (تقریباً آدھا کلو گرام) ملتی تھی۔ چیزوں کی ایسی ارزانی دیکھ کر چیلے کا جی للچا گیا اور اس نے گروجی کے سمجھانے کے باوجود وہیں ٹھہر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ جلد ہی وہ کھا پی کر موٹا تازہ ہو گیا۔ ایک دن وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک دوکان کی دیوار اچانک کسی طرح گر گئی اور ایک راہ گیر دب کر مر گیا۔ چوپٹ راجا کو خبر ہوئی تو اس نے اُس راج کی پھانسی کا حکم دے دیا جس نے دیوار بنائی تھی۔ راج نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’مہاراج، قصور میرا نہیں اِس بھشتی کا ہے جس نے گارے میں پانی زیادہ ڈال کر اس کو کمزور کر دیا تھا۔ ‘‘ راجا کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور اس نے راج کے بجائے بھشتی کی پھانسی کا حکم صادر کر دیا۔ اتفاق سے بھشتی بہت دُبلا پتلا تھا۔ اس نے عرض کی کہ ’’حضور میری گردن اتنی پتلی ہے کہ پھندا اُس کے لئے بہت بڑا ہو گا۔ بھلا مجھ کو پھانسی دینے سے کیا ملے گا۔ پھانسی تو کسی موٹے آدمی کو ملنی چاہئے۔ ‘‘ راجا چوپٹ نے فوراً کسی موٹے آدمی کی تلاش کا حکم دے دیا۔ اتفاق سے شہر میں وہی چیلہ سب سے زیادہ موٹا تھا چنانچہ اسے پکڑ کر پھانسی کے تختے کی طرف لایا گیا۔ یہ دیکھ کر گروجی نے کوتوال سے کہا کہ ’’میرے چیلے کے بجائے مجھے پھانسی دے دو۔ میری گردن بھی موٹی ہے۔‘‘ کوتوال نے حیرت سے پوچھا ’’گروجی! بھلا آپ کیوں پھانسی چڑھنا چاہتے ہیں۔‘‘ گروجی نے کہا ’’بیٹا! آج کا دن اتنا مبارک ہے کہ جو پھانسی چڑھے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ ‘‘ یہ سن کر کوتوال کہنے لگا کہ ’’یہ بات ہے تو پھر میں ہی کیوں نہ جنت میں جاؤں۔ پھانسی مجھ کو دی جائے گی۔ ‘‘ راجا کا وزیر وہیں کھڑا تھا۔ اُس نے یہ سُن کر کہا کہ ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم مجھ سے پہلے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ پھانسی میں چڑھوں گا۔ ‘‘ چوپٹ راجا صاحب نے یہ سب دیکھا تو غصہ میں آ گئے اور فرمایا کہ ’’میرے ہوتے ہوئے کس کی مجال ہے کہ جنت میں پہلے داخل ہو جائے۔ پھانسی پر میں خود چڑھوں گا۔‘‘ چنانچہ چوپٹ راجہ کو پھانسی دے دی گئی۔ گرو جی نے اس چال سے اپنے چیلے کی جان بچا لی اور اس کو سمجھایا کہ ’’بیٹا اندھیر نگری رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔‘‘ چنانچہ دونوں وہاں سے کہیں اور چلے گئے۔ [1]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ 1.0 1.1 کہاوت کہانی-06, سیما آفتاب