اپنا اُلّو کہیں نہیں گیا
Appearance
ابجد | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
ضرب المثل
[ترمیم]اپنا اُلّو کہیں نہیں گیا
مَعانی
[ترمیم]- میرا مطلب تو نکل ہی آئے گا ۔ خواہ کسی کا نفع ہو یا نقصان اپنا کام تو ہو ہی جائے گا
- مطلب یہ کو کوئی نقصان اٹھائے یا فائدہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہماری بات یوں بھی سچ ہے اور سچ رہے گی۔ یہ کہاوت اس موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی بے وقوف آدمی سے اپنا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔[1]
پس منظر
[ترمیم]اس کی کہانی یوں ہے کہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے خود کو گھوڑوں کا بہت بڑا سوداگر ظاہر کیا۔ بادشاہ نے اسے ایک لاکھ روپیہ دیا اور کہا ہمارے لیے عرب کی عمدہ نسل کے گھوڑے لے کر آنا۔ سواگر روپیہ لے کر چلتا بنا۔ یہ بات ایک شخص کو معلوم ہوئی تو اس نے اپنے روزنامچے میں لکھا، ’’بادشاہ الو ہے۔‘‘ اس گستاخی پر بادشاہ نے اس شخص کو دربار میں طلب کر کے اس کی وجہ پوچھی تو وہ شحص کہنے لگا، ’’حضور! آپ نے ایک اجنبی سوداگر کو بغیر سوچے سمجھے ایک لاکھ روپیہ دے دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ اب واپس آنے سے رہا۔‘‘
بادشاہ نے کہا، ’’اور اگر وہ واپس آگیا تو؟‘‘
اس شخص نے فوراً جواب دیا، ’’تو میں آپ کا نام کاٹ کر اس کا نام لکھ دوں گا۔ اپنا الو کہیں نہیں گیا۔‘‘ [1]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ 1.0 1.1 ہمدرد نونہال ۱۹۹۰, کہاوتوں کی کہانیاں - رؤف پاریکھ