لفظ |
زبان |
اسم - فعل - حرف |
مذکر |
مؤنث |
جمع |
جمع غیر ندائی
|
گرفتار |
فارسی |
اسم ( اسم صفت ذاتی) |
|
|
|
گِرِفْتاروں [گِرِف + تا + روں (واؤ مجہول)]
|
اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم صفت اور گاہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔
- گ ر ف ت ا ر
- گِرِف + تار
- گِرِفْتار
- پکڑا ہوا، قیدی، اسیر، محبوس۔
- "ایک لمبی مدت تک گرفتار قفس رہنے کے بعد اسے آزادی ملی تھی۔" ( ١٩٨٣ء، ساتواں چراغ، ١٦٣ )
- پھنسا ہوا، گھرا ہوا، مبتلا۔
- "نہ وہ ملت کبھی عذاب الٰہی میں گرفتار ہو گی بلکہ اس پر پیہم اللہ تعالٰی کی ان نعمتوں کی بارش ہو گی جن کو وہی جانتا ہے۔" ( ١٩٨٦ء، قرآن اور زندگی، ٢٣ )
- [ مجازا ] عاشق، فریفتہ، ناجائز تعلق رکھنے والا۔
- "میں بوڑھا ہوں اور یہ یاروں کے پیچھے خراب ہے، جب میں اسے کسی سے گرفتار دیکھتا ہوں اور اس کے قتل کا ارادہ کرتا ہوں۔" ( ١٨٨٢ء، طلسم ہوشربا، ٢٤٦:١ )
- arrested
- captivated
- captive
- entangled
- entangted
- held
- involved
- prisoner
- seized
- smitten
- stricken
- liable
- taken
- گرفتار رہنا
- گرفتار کرنا
- گرفتار ہونا
- گرفتار شدہ
- گرفتار کنندہ
- گرفتاری
چھوٹا جو مر کے قید عبارات میں پھنسا
|
القصہ کیا رہا ہو گرفتار عشق کا
|
امکان نہیں جیتے جی ہو قید سے آزاد
|
مرجائے تبھی چھوٹے گرفتار محبت
|
چھوٹا جو مر کے قید عبارات میں پھنسا
|
القصہ کیا رہا ہو گرفتار عشق کا
|
سب طرحیں اس کی اپنی نظر میں تھیں کیا کہیں
|
پر ہم بھی ہوگئے ہیں گرفتار ایک طرح
|
کیا جانیں وہ مرغان گرفتار چمن کو
|
جن تک کہ بصد ناز نسیم سحر آوے
|
پیغام نہ پہنچے کوئی ارباب جنوں تک
|
خوشبو کو گرفتار کرو‘ موسمِ گل ہے
|
چاند بھی اس کا گرفتار ہے‘ سورج بھی شکار
|
ہر اجالا مرے محبوب کا دیوانہ ہے
|
میں اپنی محّبت میں گرفتار ہُوا ہُوں
|
اِس درد کی قسمت میں دَوا کوئی نہیں ہے
|
دامِ خُوشبُو میں گرفتار صبا ہے کب سے
|
لفظ اظہار کی اُلجھن میں پڑا ہے کب سے
|
ہنستا ہے عشق مجھ کو گرانباز دیکھ کر
|
زندان آب وگل میں گرفتار دیکھ کر
|
گرفتار ہوس کیا لذت دیدار کوں پاوے
|
جدا جو کوئی ہوا ہے آپ میں پایا وصال اس کا
|