اُس وقت بولتے ہیں جب کوئی کسی منصب یا کام کے لائق نہ ہو۔ یعنی کہ کام ، عہدہ یا منصب کے مطابق کوئی اِن پر پورا نہ اُترتا ہو۔
اس کہاوت کا مطلب ہے کہ تم اس کام یا ذمہ داری کے قابل نہیں ہو مگر کہتے ہو کہ ہم یہ کریں گے ہم وہ کریں گے۔ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کسی سے یہ کہنا ہو کہ تم نالائق ہو اور فلاں کام نہیں کر سکتے یا کوئی شخص ایسی فرمائش کرے جس کا خرچ اٹھانے کی اجازت اس کی کنجوسی نہ دے۔[1]
اس کا قصّہ بھی سنیے۔ کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ کا باورچی ایک نواب کے ہاں نوکر ہوگیا۔
نواب نے اس سے پوچھا، "تم کیا چیز سب سے اچھی پکاتے ہو؟"
وہ بولا، "مسور کی دال ایسی مزید ار پکاتا ہوں کہ جو کھاتا ہے انگلیاں چاٹتا رہ جاتا ہے۔"
نواب نے کہا، "اچھا کل ہمارے ہاں دعوت ہے۔ کل ہی مسور کی دال پکا کر دکھاؤ تو جانیں۔"
باورچی نے حامی بھر لی۔ اگلے روز شامیانہ بندھا۔ مہمان آئے۔ باورچی نے مسور کی دال طشتری میں نکال کر پیش کی۔ پورا شامیانہ مہک اٹھا۔ نواب صاحب آئے۔ دال چکھی۔ واقعی ایسی ذائقے دار اور مزیدار دال کبھی نہ کھائی تھی۔ اش اش کر اٹھے، لیکن تھے آخر کو کنجوس، خرچ کا خیال آگیا۔ بادشاہ ہوتے تو خرچ کی فکر نہ کرتے، لیکن باورچی بادشاہ کے محل میں کام کر چکا تھا۔ دل کھول کر خرچ کرنے کا عادی تھا۔ اس لیے جب نواب صاحب نے پوچھا کہ دال تو بہت مزے کی ہے، مگر خرچ کتنا اٹھا، تو باورچی کو بہت برا لگا۔
ضبط کر کے بولا، "دو آنے کی دال ہے، بتیس روپے کا مسالا ہے۔"
سستا زمانہ تھا۔ نواب صاحب اتنی مہنگی دال کا سن کر چیخ پڑے، "کیا کہا! بتیس روپے دو آنے کی مسور کی دال!"
باورچی تو بھرا بیٹھا تھا۔ طیش میں آکر جیب سے بتیس روپے دو آنے نکال کر رکھ دیے اور دال کا برتن زمین پر پٹخ دیا اور کہا، "اونھ! یہ منہ اور مسور کی دال۔"
یہ کہہ کر چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ دال شامیانے کے جس بانس پر گری تھی وہ کچھ روز بعد مسالے کے اثر سے سرسبز ہو گیا اور اس طرح یہ کہاوت مشہور ہو گئی۔
[1]