گرفتہ

ویکی لغت سے

اردو[ترمیم]

لفظ زبان اسم - فعل - حرف مذکر مؤنث جمع جمع استثنائی
گرفتہ فارسی اسم ( اسم صفت ذاتی) گرفتہ گِرِفْتَگان [گِرِف + تَگان]


اشتقاقیات[ترمیم]

فارسی زبان میں مصدر 'گرفتن' کا اسم مفعول 'گرفتہ' اردو میں بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٩٨ء کو "دیوانِ میرسوز" میں مستعمل ملتا ہے۔

تلفظ[ترمیم]

  • گ ر ف ت ہ
  • گِرِف + تَہ
  • گِرِفْتَہ

معانی[ترمیم]

  • گرفتار، بند، گھٹا ہوا، (مجازاً) افسردہ، مغموم، ملول۔
    • واشد دل نہ ہوئی اور گرفتہ سے ہوئے رد کرو اب گل و گلزار کو صحرا دیکھو ( ١٨٣٢ء، دیوان رند، ١١٩:١ )
  • پکڑا ہوا، اور گرفتار، مرکبات میں بطور جزو دوم مستعمل۔
    • "جب پت جھڑ اپنے عروج پر ہو اور ہوائیں گزرتے ہوئے سال کا نوحہ گا رہی ہوں، کسی شب گرفتہ راہی نے دیکھا ہو۔" ( ١٩٦٥ء، شاخ زریں، ١١:١ )

مترادفات[ترمیم]

تراجم[ترمیم]

رومن[ترمیم]
انگریزی[ترمیم]

مرکبات[ترمیم]

  1. گرفتہ خاطر
  2. گرفتہ دل
  3. گرفتہ دلی

روزمرہ جات[ترمیم]

  1. [[]]

ماخوذ اصطلاحات[ترمیم]

  1. [[]]

مزید دیکھیں[ترمیم]

ماخذ[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

نثری حوالہ جات[ترمیم]

شعری حوالہ جات[ترمیم]

شب اس دل گرفتہ کو وا کر بزوز مے
بیٹھے تھے شیرہ خانہ میں ہم کتنے ہرزہ کوش

عربی[ترمیم]